خلاصہ: زیارت جامعہ کبیرہ کا پہلا فقرہ "اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ يا اَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ" ہے، اس فقرے کے الفاظ کی روشنی میں اہل بیت (علیہم السلام) کے رتبہ کی بلندی طائرانہ طور پر بیان کی جارہی ہے۔
زیارت جامعہ کبیرہ میں حضرت امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ يا اَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ"، "آپ پر سلام ہو اے نبوّت کا گھرانہ"۔
۱۔ "یا" حرف ندا ہے جس کے ذریعے قریب، متوسط اور دور والے مخاطب کو پکارا جاتا ہے۔ اگر یہاں پر بعید (دور) کے معنی مراد ہوں تو ایسے مواقع پر مقصود یہ ہوتا ہے کہ مخاطب (جسے پکارا جارہا ہے) اس کا مقام اور منزلت اتنی بلند ہے کہ پکارنے والا وہاں تک نہیں پہنچ سکتا بلکہ اس مقام کو سمجھ بھی نہیں سکتا اگرچہ ان حضرات (علیہم السلام) کے جسم مطہّر اور روضہ مبارک کے پاس ہو۔
لہذاجب انسان اپنے آپ کا اس بلند مقام کے سامنے دیکھتا ہے اور اس بہت زیادہ فاصلہ کا ادراک کرتا ہے تو ندائے بعید والے حرف "یا" کے استعمال کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں پاتا۔
اس کی شبیہ "ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ" ہے۔ "ذلک" ایسا اسم اشارہ ہے جس کے ذریعے دور والی چیزوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ اس اسم اشارہ کا یہاں پر استعمال کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ قاری کا براہ راست اور قریب سے قرآن کریم کے الفاظ اور اوراق سے رابطہ ہے مگر قرآن کریم کا مقام اس قدر بلند و بالا ہے کہ قاری اپنے آپ کو اس سے دور پاتا ہے۔
۲۔ "اَھْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ" کا زیارت کی ابتدا میں بیان ہونا، دیگر کمالات کو بیان کرنے کا مقدمہ ہے، کیونکہ زائر زیارت کی ابتدا میں کہتا ہے: آپ بلند رتبہ گھرانہ میں سے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو دوسروں پر فضیلت دی ہے، اسی لیے آپؑ ان تمام کمالات کے حامل ہیں جو اس زیارت میں بیان ہوئے ہیں، کیونکہ آپ نبوّت کا گھرانہ ہیں تو ان فضائل و کمالات کے لائق ہیں۔
۳۔ ۔ نبوّت، "نَبَوَ" کا مصدر ہے یعنی بلندی۔
۔۔۔۔۔۔
[ماخوذ از: ادب فنای مقرّبان، شرح زیارت جامعہ کبیرہ، آیت اللہ جوادی آملی]
Add new comment