خلاصہ: حدیث میں زبان اور جسم کے اعضاء کی گفتگو بیان ہوئی ہے، اس سے متعلق چند تربیتی نکات کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "إِنَّ لِسَانَ ابْنِ آدَمَ یُشْرِفُ عَلَى جَمِیعِ جَوَارِحِهِ كُلَّ صَبَاحٍ فَیَقُولُ: كَیْفَ أَصْبَحْتُمْ؟ فَیَقُولُونَ: بِخَیْرٍ إِنْ تَرَكْتَنَا وَ یَقُولُونَ اللَّهَ اللَّهَ فِینَا وَ یُنَاشِدُونَهُ وَ یَقُولُونَ إِنَّمَا نُثَابُ وَ نُعَاقَبُ بِك"، "یقیناً ہر صبح فرزندِ آدم کی زبان اس کے تمام اعضاء پر نظر دوڑاتی ہے تو کہتی ہے: تم کیسے ہو؟ وہ کہتے ہیں: خیریت سے ہیں اگر تم ہمیں (اپنے حال پر) چھوڑ دو اور کہتے ہیں: اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو ہمارے بارے میں، اور اسے قسم دیتے ہیں اور کہتے ہیں: ہمیں صرف تمہاری وجہ سے ثواب اور عذاب دیا جائے گا"۔[الکافی، ج۲، ص۱۱۵]
۱۔ زبان دوسرے اعضاء پر دونوں لحاظ سے اثرانداز ہوسکتی ہے، ثواب کے لحاظ سے بھی اور عذاب کے لحاظ سے بھی۔ "إِنَّمَا نُثَابُ وَ نُعَاقَبُ بِك"
۲۔ زبان دوسرے اعضاء کے لئے خطرناک ہے۔ ہر خطرناک چیز کے خطروں سے بچنے کے لئے، سب سے پہلے اس کے خطروں پر مکمل طور پر توجہ کرنی چاہیے۔
۳۔ ہر روز جب آدمی نیند سے جاگتا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے آپ کو تاکید کرے کہ اپنی زبان کے خطروں کا خیال رکھے، کیونکہ یہ زبان انسان کو سعادت اور خوش نصیبی کے بلند درجہ تک بھی پہنچا سکتی ہے اور ذلت و بدبختی کے گھاٹ بھی اتار سکتی ہے۔
۴۔ آدمی زبان کو استعمال کرنے کے شرائط سے غافل نہ ہوجائے ورنہ غافل آدمی اس کے نقصانات کا شکار بن جائے گا۔
۵۔ یہاں پر "انّما یعنی صرف" کہنے کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دوسرے اعضاء کا ثواب اور عذاب زیادہ تر زبان کی وجہ سے ہوتا ہے، ورنہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر عضو کا ثواب اور عذاب اس کے اپنے عمل کی وجہ سے نہیں ہوتا۔
۶۔ انسان جتنی کم باتیں کرے، اس کی غلطیاں اتنی ہی کم ہوں گی اور جتنی زیادہ خاموشی اختیار کرے، اتنا زیادہ سلامت رہے گا۔
۔۔۔۔۔
حوالہ:
[الکافی، شیخ کلینی علیہ الرحمہ]
Add new comment