خلاصہ: قرآن اور روایات کی روشنی میں واضح ہوتا ہے انسان دوسرے سے اچھے انداز میں بات کرے۔
سورہ بقرہ کی آیت ۸۳ میں ارشاد الٰہی ہے: "وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْناً"، "اور لوگوں سے حسن گفتار سے پیش آؤ"۔
بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ دوسروں کو برے الفاظ سے یا بے احترامی سے بلاتے ہیں،اگر ان کو اسی انداز سے بلایا جائے جیسے وہ دوسروں کو بلاتے ہیں تو ان کو پسند نہیں آئے گا۔
حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "أجمِلُوا في الخِطابِ تَسمَعُوا جَميلَ الجَوابِ"، "خوبصورت طریقے سے بلاؤ تا کہ خوبصورت جواب سنو"۔ [غرر الحكم و درر الكلم، ص۱۵۸، ح۹۰]
جب آدمی پہاڑ کے پاس کھڑا ہو کر آواز دے تو اس کی اپنی آواز واپس لوٹتی ہے، اگر اچھی بات کرے تو جو آواز پلٹ کر آئے گی وہ اچھی بات ہوگی اور اگر بری بات کہے تو بری آواز واپس آئے گی، کیونکہ وہ درحقیقت اس کی اپنی آواز ہے، اسی طرح جب کوئی شخص لوگوں سے اچھے انداز اور ادب و احترام سے بات کرتا ہے تو اسے خوبصورت اور محترمانہ جواب ملے گا اور اگر تلخ کلامی سے بات کرے تو اسے خوبصورت جواب کی توقع نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ ملنے والا جواب اس کے اپنے خطاب کا ردّعمل ہے۔
نیز حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "نَكيرُ الجَوابِ مِن نَكيرِ الخِطابِ"، "برا جواب (سننا) برے (طریقے سے) بلانے کی وجہ سے ہے"۔ [غرر الحكم و درر الكلم، ص۷۲۰، ح۱۴]
لہذا انسان کو متوجہ رہنا چاہیے کہ جب گھر میں بیوی بچوں سے، باہر دوستوں سے، دوکان، کاروبار، کارخانہ اور خرید و فروخت میں، یعنی جو افراد اس سے عمر میں یا مقام میں کم ہیں، کیا اُن سے بات کرتے ہوئے ادب و احترام کا خیال رکھتا ہے یاان کو اپنے سے حقیر سمجھتے ہوئے ان سے بے ادبی اور بے احترامی سے بات کرتا ہے؟!
۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[غرر الحكم و درر الكلم، آمدی]
[ترجمہ آیت از: مولانا شیخ محسن نجفی صاحب]
Add new comment