خلاصہ: بعض اوقات انسان سمجھتا ہے کہ زیادہ بولے گا تو لوگوں کا محبوب بن جائے گا اور لوگ اس کو اچھا سمجھیں گے، جبکہ کبھی حقیقت اس کے الٹ ہوتی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف طاقتیں عطا فرمائی ہیں، ان میں سے ایک، بولنے کی طاقت ہے۔ انسان زبان کے ذریعے جتنا بولتا رہے زبان کو تھکن محسوس نہیں ہوتی، اور ادھر سے مختلف اوقات میں انسان کے لئے بولنے کا موقع بھی فراہم ہوتا رہتا ہے، بولنے میں انسان کو لذت محسوس ہوتی ہے، لیکن اگر انسان زیادہ باتیں کرے تو یہی لذت مختلف لحاظ سے بے لذتی میں بدل جائے گی، آدمی ذہنی اور جسمانی طور پر تھک جائے گا اور سننے والا آدمی بھی اکتا جائے گا۔
لوگ جب دیکھیں کہ یہ آدمی زیادہ باتیں کرتا ہے اور اگر اس سے کوئی بات پوچھ لی جائے تو اس کی گفتگو اتنی طویل ہوجاتی ہے کہ بات کو ختم کرنا مشکل کام بن جاتا ہے تو لوگ ایسے آدمی سے دوری اختیار کریں گے اور اس سے نہ کوئی مشورہ لیں گے اور نہ کوئی بات پوچھیں گے۔
لیکن جس آدمی کو اپنی زبان پر قابو ہے اور اس کا مقصد لوگوں کو فائدہ پہنچانا ہے تو وہ بہترین بات کو مختصر الفاظ میں اچھے انداز سے بیان کردے گا اور ایسی بات لوگوں پر زیادہ اثرانداز ہوسکتی ہے۔
لہذا یہ واضح رہے کہ کسی مسئلہ کو حل کرنا یا کسی کی راہنمائی کرنے کا طریقہ یہی نہیں ہے کہ بہت زیادہ باتیں کی جائیں، بلکہ دوسرے آدمی کا متاثر ہونا اہم ہے اور وہی بات بہتر اثرانداز ہوتی ہے جو انسانوں کی فطری طبیعت اور مزاج کے خلاف نہ ہو۔
Add new comment