خلاصہ: روزہ انسان پر اس قدر اثرانداز ہوتا ہے کہ انسان کے دل اور فہم و ادراک میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔
روزہ میں یہ کمال پایا جاتا ہے کہ روزہ ہوس و ہوس کی مصیبت کو انسان کے ذہن سے نکال دیتا ہے اور انسان کے حیوانی پہلو کی افراطی خواہشات کو زائل کردیتا ہے۔
روزہ کے ذریعے انسان کی فہم و ادراک تبدیل ہوجاتی ہے، جو چیزیں مفید نہیں تھیں اور انسان ان کی تلاش میں تھا، دل کے بیدار ہوجانے سے انسان ان کی تلاش نہیں کرے گا اور جن چیزوں کی اسے پہلے رغبت نہیں تھی اب ان کو اہمیت دے گا اور وہ چیزیں اس کی مطلوب بن جائیں گی۔ لہذا ہدایت کے اسباب کو پسند کرے گا نہ کہ گمراہی کے اسباب کو۔ اس حال میں عالَم غیب، ملائکہ اور قیامت کو کسی طرح سے کچھ حد تک محسوس کرسکتا ہے، کیونکہ جب دل زندہ ہوجائے تو اعلیٰ حقائق کا ادراک اس کے لئے فراہم ہوجاتا ہے۔ ان حقائق کا زیادہ ادراک، دل کی حیات کی شدت سے وابستہ ہے۔
روزہ کے ذریعے انسان کے بدن کے اعضا برے کاموں سے باز آجاتے ہیں۔ روزہ دار کا دل اس کے جسم کے اعضاء پر اس طرح قابو پالیتا ہے کہ یہ اعضا برے کاموں کا ارتکاب نہیں کرتے، انسان کا دل اس کے اعضائے بدن پر غالب ہوجاتا ہے، نہ کہ انسان کی نفسانی خواہش اس پر غالب ہوسکے۔ اب یہ آنکھ وہ آنکھ نہیں ہے جو گناہ کے مقصد سے دیکھے۔
روزہ ظاہر کی بھی مرمت کردیتا ہے اور باطن کو بھی غلط خواہشات سے آزاد کروا دیتا ہے اور نیز ظاہر باطن کے مطابق بن جاتا ہے۔
روزے کے ذریعے انسان کا دل قساوت اور سنگدلی سے نکل جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں زیادہ گڑگڑاتا ہے، کیونکہ انسان کی جان ملکوتی ہے، اور وہ کسی مصلحت کے تحت عالَم مادہ اور عالَم بدن میں اتری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[اصل مطالب ماخوذ از: کتاب رمضان دریچہ رویت، استاد طاہر زادہ]
Add new comment