خلاصہ: روزہ کا روح اور جسم دونوں پر اثر ہوتا ہے، جسم پر اثر یہ ہے کہ روزہ جسم کی زکات ہے، اس مضمون میں اس بات کی وضاحت کی جارہی ہے۔
انسان مال کی زکات دیتا ہے تاکہ مال پاک ہوجائے، اسے استعمال کرسکے اور اس میں برکت ہو۔ روزہ کا بالکل یہی اثر بدن پر ہوتا ہے کہ روزہ داری سے انسان کا بدن انسان کی خدمت میں قرار پاتا ہے اور انسان اس کی خواہشات کا قیدی نہیں بنتا۔ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: "لِكُلِّ شَيءٍ زَكاةٌ، وزَكاةُ الأَبدانِ الصِّيامُ"، "ہر چیز کی کوئی زکات ہے اور بدنوں کی زکات روزہ داری ہے"۔ [الکافی، ج۴، ص۶۲]
ایسا بدن انسان کے اختیار میں ہوتا ہے نہ یہ کہ انسان اس کے اختیار میں ہو۔ بھرا ہوا پیٹ روح کو اچھائی سے برائی کی طرف دھکیلتا ہے اور انسان اپنے دیگر فائدوں کو گم کر بیٹھتا ہے۔
جب ایمان کا نور دل پر چمکے اور انسان نے ایمان کی حرارت محسوس کرلی تو پھر زیادہ کھانے سے لذت لینا پسند نہیں کرے گا۔ مومن کی روح یہ برداشت نہیں کرتی کہ غافلوں کی طرح اپنے دل کو ہواوہوس کے سپرد کردے کہ جتنی چاہے اتنی ہواوہوس اس میں ڈال دے۔
مومن اور منافق کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ منافق میں زیادہ کھانے کی جرات ہوتی ہے اور مومن میں زیادہ کھانے کی جرات نہیں ہوتی۔ روایت میں ہے: " المُؤْمِنُ یَأْکُلُ فی مَعاءٍ واحدٍ و المُنافقُ یَأکُلُ فی سَبْعَةِ امْعاءِ"، "مومن ایک آنتڑی سے کھاتا ہے اور منافق سات آنتڑیوں سے کھاتا ہے"۔ [بحارالانوار، ج۸۴، ص۲۰۴]
جب ایمان کا نور دل میں نہ ہو تو لالچ اور شہوت بھڑک اٹھتی ہے اور کھانا، اس لالچ اور شہوت کو بجھانے کا بہانہ بن جاتا ہے، حالانکہ کھانے سے لالچ اور شہوت نہیں بجھیں گی، یہ ایسا ہے کہ آدمی آگ میں زیادہ لکڑیاں ڈالنے سے آگ کو سیراب کرنا چاہے، لہذا جب ایمان کا نور دل میں آگیا تو انسان لالچ اور شہوت کی کوئی پرواہ نہیں کرے گا کہ جسے کھانے کے ذریعے بھرنا چاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[بحاالانوار، علامہ مجلسی علیہ الرحمہ]
[اصل مطالب ماخوذ از: کتاب رمضان دریچہ رویت، استاد طاہر زادہ]
Add new comment