خلاصہ: جوانی میں انسان بہت ساری طاقتوں کا حامل ہوتا ہے جن کو رفتہ رفتہ بڑھاپے میں کھو بیٹھتا ہے، یہ طاقتیں جو انسان کو ملی ہیں، اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے ملی ہیں، نہ یہ کہ دنیا میں کھیل کود کے لئے، لہذا ان طاقتوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں لگا دینا چاہیے۔
رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے جناب ابوذر ؒسے فرمایا: "يا أباذَرٍّ، ما مِن شابٍّ يَدَعُ لِلّهِ الدُّنيا ولَهوَها وأهرَمَ شَبابَهُ في طاعَةِ اللّهِ إلَا أعطاهُ اللّهُ أجرَ اثنَينِ وسَبعينَ صِدّيقاً"، "اے ابوذر! کوئی جوان نہیں ہے جو اللہ کی خاطر دنیا کو اور اس کے فضول کاموں کو چھوڑ دے اور اللہ کی اطاعت میں اپنی جوانی کو بڑھاپے میں ڈھال دے مگر اللہ اسے بہتّر صدّیقوں کا اجر عطا فرمائے گا "۔ [بحار الانوار، ج۷۷، ص۸۶]
نیز آپؐ نے جناب ابوذر ؒسے فرمایا: "اِغتَنِم خَمسا قَبلَ خَمسٍ : شَبابَكَ قَبلَ هَرَمِكَ..."، "پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو: اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے..."۔ [بحار الانوار، ج۷۷، ص۷۷]
جب جوانی گزر جاتی ہے تو اس کے بعد انسان کو بہت سارے مسائل کی سمجھ آتی ہے کہ جن مسائل کو جوانی میں اہمیت نہیں دیتا تھا، بوڑھاپے میں پہنچ کر سمجھ جاتا ہے کہ یہ مسائل انتہائی اہم تھے مگر اب جسمانی طاقت نہیں ہے کہ ان مسائل کو جسم سے بجالایا جاسکے، اور بوڑھاپے میں بعض مسائل کی سمجھ آجاتی ہے کہ ان مسائل کی اہمیت نہیں تھی جن کو جوانی میں اہمیت دی اور جوانی کو ان فضول کاموں میں ضائع کردیا۔ طرح طرح کی کھیل کود، فضول باتیں، بیہودہ سوچیں، لاحاصل مقاصد، کھوکھلی آرزوئیں، بے بنیاد عقیدے، اللہ تعالیٰ کے احکام و فرامین کی لاپرواہی، نماز و روزہ کو حقیر سمجھنا، گناہوں کو چھوٹا سمجھنا، جب جوانی گزر جاتی ہے اور بڑھاپا آجاتا ہےتو واضح ہونے لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی اہمیت کس قدر زیادہ ہے کہ ان کے بغیر آخرت میں انسان کے پاس کچھ نہیں ہوگا جو اسے عذاب سے نجات دے سکے۔ لہذا جو بات بڑھاپے میں سمجھ آئے گی اسے جوانی میں ہی سمجھ لینا چاہیے اور جوانی میں اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار بندہ بن جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[بحاالانوار، علامہ مجلسی علیہ الرحمہ]
Add new comment