خلاصہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے یہ ساتواں مضمون ہے جو الہام الہی کے بارے میں تحریر ہورہا ہے۔ حضرت صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا) نے شکر کو اللہ سے مختص کرتے ہوئے اس چیز پر جو اللہ نے الہام کی ہے، اللہ کا شکر کیا ہے۔ اس مضمون میں الہام کے مختلف پہلووں پر گفتگو کی جارہی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے یہ ساتواں مضمون پیش کیا جارہا ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) جب اپنے بابا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسجد میں عزت و عظمت کے ساتھ داخل ہوئیں تو گریہ کرنے لگیں، لوگ بھی آپؑ کے گریہ کی وجہ سے رونے لگے، جب لوگ خاموش ہوگئے تو آپؑ نے خطبہ شروع کرتے ہوئے اللہ کی حمد و ثناء کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوات بھیجی، یہ سن کر لوگ دوبارہ رونے لگ گئے، جب انہوں نے خاموشی اختیار کی تو آپؑ نے دوبارہ اپنا خطبہ آغاز کیا، راوی کا کہنا ہے: "فَقالَتْ: اَلْحَمْدُلِلّهِ عَلی ما أنْعَمَ وَ لَهُ الشُّكْرُ عَلی ما أَلْهَمَ"…[1]، "آپؑ نے فرمایا: ساری حمد (تعریف) اللہ کے لئے ہے ان نعمتوں پر جو اس نے عطا فرمائیں اور صرف اس کا شکر ہے اس (اچھی سمجھ) پر جو اس نے الہام کی (دل میں ڈالی) "…۔ یہ مضمون "عَلی ما أَلْهَمَ" سے ماخوذ لفظ "الہام" پر تحریر کیا جارہا ہے۔
الہام کا مفہوم: الہام باب افعال کا مصدر ہے جو "ل، ہ،م" سے ماخوذ ہے۔ "لَهْم "کا مطلب"نگلنا"ہے۔[2] الہام لغوی لحاظ سے وحی کی طرح عام معنی کا حامل ہے، لیکن شریعت کے لحاظ سے اور خصوصاً علم کلام اور عقائد کے علماء کی نظر میں خاص اصطلاح بن گئی ہے۔ عرفاء کی اصطلاح میں، الہام ایسی چیز ہے جو غیب سے دل میں اترتی ہے اور سوچنے، غور کرنے اور الہام وصول کرنے والے کی درخواست کیے بغیر اللہ کے فیض سے معنی اور معرفت کا دل میں اترنا ہے۔ الہام کے ساتھ الہام کی کوئی علامت اور نشانی نہیں ہوتی، اس کی واحد علامت یہ ہے کہ انسان کو الہام کے ذریعے سے کسی کام کے انجام دینے یا کسی کام سے رک جانے پر اکسایا اور ابھارا جاتا ہے۔
نیز کہا گیا ہے کہ الہام یعنی صالح اعمال اور بلند حقائق کی طرف جذب ہونے اور کھینچے جانے کی کیفیتوں کا حصول اور دریافت بغیر مقدمہ، سوچ اور استدلال کے، کہ معلوم نہیں ہوتا کہ کیسے اور کہاں سے حاصل ہوا، بلکہ شخص اسے اچانک ادراک کرلیتا ہے، اس کیفیت کو الہام کہا جاتا ہے اور روع میں نفث یا دل میں نفث کہا جاتا ہے۔[3]
الہام قرآن کی روشنی میں: لفظ الہام قرآن کریم میں صرف ایک بار اور وہ بھی فعل ماضی کی صورت میں سورہ شمس میں ذکر ہوا ہے جو صرف انسان کے بارے میں اور وہ بھی بلاواسطہ اور تکوینی (فطری) طور پر القاء ہے۔ یہ بلاواسطہ القاء، اللہ کی طرف سے فجور اور تقوا کا القاء اور الہام ہے، ارشاد الہی یہ ہے: "فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا"[4]، "پھر اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری کا الہام (القاء) کیا"، کون سا عمل برا ہے اور کون سا عمل اچھا ہے، یہ عقلِ عملی ہے جو ہر انسان میں پایا جاتا ہے کہ مثلاً عدل و انصاف اچھا کام ہے اور ظلم و فساد برا کام ہے۔
الہام روایات کی روشنی میں:الہام ایسی وصول کرنے والی کیفیت ہے کہ شخص اپنے اندر مقدمہ کے بغیر محسوس کرتا ہے چاہے علمی عنوان سے ہو یا غیرعلمی جیسے اخلاق اور تقوی۔ جیسا کہ دعائے مکارم الاخلاق میں ہے: "اللهم ألهمني التقوى"، "بارالہا! مجھے تقوی الہام فرما" یعنی تقوی کے وصول کرنے کی لذت جو معنوی لذات میں سے ہے، مجھے عطا فرما۔ ایک اور دعا میں ہے: "اللهم ألهمني الخير والعمل به "، "بارالہا! مجھے خیر اور اس پر عمل کرنا الہام فرما" یعنی خیر کا الہام، اس لحاظ سے کہ کون سا عمل خیر ہے اور عمل کے لحاظ سے بھی جو قلبی دریافت کی لذت ہے اور سب لذتوں سے بہتر لذت ہے، مجھے عطا فرما۔[5]
الہام ہونے کی وجہ: ہر انسان نے کم و بیش الہامی کیفیت کو محسوس کیا ہوا ہے کہ ایسی کیفیت مقدمہ کے بغیر انسان کو محسوس ہوتی ہے۔ شاید یہ کیفیت کو اللہ تعالی نے لوگوں کے لئے اس لیے رکھا ہے کہ جب انسان اس الہامی کیفیت کو اپنے اندر محسوس کرتا ہے تو وحی جو انبیاء (علیہم السلام) پر نازل ہوتی ہے اس پر بھی ایمان لائے، کیونکہ وحی بھی الہام کی طرح اور الہام کا مکمل درجہ ہے اور اگر وحی عقلی طور پر محال اور ناممکن ہو تو الہام کو بھی ناممکن ہونا چاہے، مگر جب یہ دونوں ایک دوسرے جیسے ہیں تو جو بات ایک کے لئے ثابت ہو دوسرے کے لئے بھی ثابت ہوتی ہے۔لہذا اگر الہام کو لوگ محسوس کرتے ہیں تو وحی جو اس کا مکمل درجہ ہے وہ بھی موجود ہے اور اس کا انکار نہیں کرنا چاہیے اور یہ وہی ہے جو امام المتقین (علیہ السلام) ائمہ (علیہم السلام) کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "هجم بهم العلم على حقيقة البصيرة و باشروا روح اليقين"، "ان کا علم حق و حقیقت کی بنیاد پر ہجوم لایا اور وہ یقین کی روح کے ساتھ مباشرت اور براہ راست رابطہ میں تھے"۔[6]
وحی اور الہام کا باہمی تعلق اور فرق: قرآن کریم میں وحی اور الہام جن مقامات پر استعمال ہوئے ہیں، ان سے یہ حاصل ہوتا ہے کہ وحی اور الہام ایسا ادراک ہے جو بعض اوقات ناآگاہ یا نیم آگاہ طور پر ہوتا ہے، جو عادی اسباب کے ذریعے سے حاصل نہیں ہوتا۔ لغوی معنی کے لحاظ سے الہام خاص ہے اور وحی عام ہے، یعنی وحی، الہام سے زیادہ وسیع ہے، کیونکہ لفظ وحی انسان کے علاوہ دیگر مخلوقات کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جبکہ الہام صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ لیکن آگاہی اور عدم آگاہی کے لحاظ سے الہام، وحی سے زیادہ وسیع ہے، کیونکہ وحی خاص معنی میں یعنی انبیاء (علیہم السلام) پر وحی ہونا اور وحی تشریعی، آگاہی کے ساتھ ہوتی ہے جو ایسے معارف پر مشتمل ہوتی ہے کہ نبی اسے آگاہی کے ساتھ وصول کرتا ہے، لیکن الہام عام ہے یعنی سب وہ معارف جو آگاہی یا عدم آگاہی کے ساتھ اللہ اور ملائکہ کی جانب سے انسان تک پہنچتے ہیں۔
مرحوم فیض کاشانی فرماتے ہیں: جو علوم بدیہی اور واضح نہیں ہیں، انسان ان کو دو طریقوں سے حاصل کرسکتا ہے۔ ایک طریقہ استدلال اور سیکھنا ہے جو علماء اور حکیموں سے مختص طریقہ ہے اور اصطلاحی طور پر اعتبار اور استبصار[7] کہلاتا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ یہ معارف خود دل پر برس پڑیں، گویا ایسی جگہ سے جہاں سے خود شخص نہیں جانتا، وہاں سے اس کے دل میں اتارے جاتے ہیں۔ اس کی بھی دو قسمیں ہیں: ایک قسم: اس کے سبب سے مطلع نہیں ہے جہاں سے یہ علم اس کے دل میں اتارا جاتا ہے، یہ قسم الہام اور دل کی گہرائی میں پھونکا جانا کہلاتا ہے، بشرطیکہ دل میں ڈالا جائے اور اگر کان میں گونجے تو فرشتہ کی بات کہلاتی ہے اور اولیاء اور ائمہ سے مختص ہے۔ دوسری قسم:یا اس کے سبب سے مطلع ہے جسے وحی کہا جاتا ہے اور پیغمبر اور رسولوں سے مختص ہے…، لہذا الہام اور فرشتوں کے کلام کا اکتسابی علم سے واحد فرق، ان کے حجاب اور سبب کے زائل ہونے کی کیفیت اور طریقہ میں ہے، اور نیز وحی کا الہام اور فرشتوں کے کلام سے مذکورہ امور میں فرق، اس کے زیادہ واضح ہونے میں ہے اور نیز یہ کہ وحی میں جو فرشتہ علم پہنچاتا ہے، نظر آتا ہے۔[8]
نتیجہ: الہام یعنی کیفیتوں کا حصول اور دریافت، صالح اعمال اور بلند حقائق کی طرف جذب ہونا اور کھینچے جانا مقدمہ، سوچ، استدلال کے بغیر، کہ معلوم نہیں ہوتا کہ کیسے اور کہاں سے حاصل ہوا، بلکہ شخص اسے اچانک ادراک کرلیتا ہے۔ وحی الہام کا زیادہ مکمل درجہ ہے، الہام قرآن کریم میں ایک بار ذکر ہوا ہے اور روایات میں کئی بار۔ اللہ تعالی نے ہر انسان کو بدکاری اور تقوی کا الہام کیا ہے اور دعاوں سے واضح ہوتا ہے کہ الہام طلب کیا جاسکتا ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) خطبہ فدکیہ میں شکر کو اللہ سے مختص کرتے ہوئے اس چیز پر اللہ کا شکر ادا کرتی ہیں جو اللہ نے الہام کی ہے۔ نیز وحی، الہام اور تحدیث کا باہمی تعلق بھی ہے اور کچھ فرق بھی پائے جاتے ہیں جنہیں زیادہ تفصیلی طور پر اگلے مضمون میں پیش کیا جارہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] احتجاج، طبرسی، ج1، ص131، 132۔
[2] الصحاح جوہری، ج5، ص2036۔
[3] شرح خطبه حضرت زهرا(سلام الله عليها)، آيتالله العظمي سيد عزالدين حسيني زنجانى، ج1، 54 سے اقتباس۔
[4] سورہ شمس، آیت 8۔
[5] شرح خطبه حضرت زهرا(سلام الله عليها)، آيتالله العظمي سيد عزالدين حسيني زنجانى، ج1، ص53 سے اقتباس
[6] شرح خطبه حضرت زهرا(سلام الله عليها)، آيتالله العظمي سيد عزالدين حسيني زنجانى، ج1، ص54 سے اقتباس کچھ کمی بیشی کے ساتھ۔
[7] اکتسابی علم۔
[8] http://naseroon.ir بنقل از فیض كاشانی؛ علم الیقین/ص468۔
Add new comment