خلاصہ: گناہ کے ظاہر اور باطن کا آپس میں فرق ہوتا ہے، اسی لیے باطن پر بھی توجہ کرنی چاہیے کہ پرکشش ظاہر انسان کو دھوکہ میں نہ ڈال دے۔
عموماً جب انسان اپنی پسند والی چیز کو دیکھ لے تو اس کے دیگر پہلوؤں کے بارے میں نابینا ہوجاتا ہے، اس کی ظاہری خوبصورتی پر ہی راضی ہوجاتا ہے اور اس کے ظاہری پہلو میں اپنے آپ کو مصروف کرلیتا ہے، جبکہ اسے غور کرنا چاہیے کہ اس چیز کا ظاہر، اس کا ایک پہلو ہے، اس کے علاوہ دیگر پہلو بھی پائے جاتے ہیں جن کا انسان پر اثر اس ظاہری پہلو سے بہت زیادہ اور بہت گہرا ہوتا ہے۔ شیطان اس ظاہری پہلو کو اسی لیے خوبصورت کرتا ہے کہ دیگر پہلوؤں سے غافل کردے، جب انسان ان دوسرے پہلوؤں سے غافل ہوجائے تو ظاہر میں ڈوب کر اس چیز کے باطنی پہلوؤں سے غفلت کا شکار ہوجاتا ہے، جب غافل ہوگیا تو وہ باطنی پہلو اپنا اثر دکھائیں گے، وہ باطنی پہلو ظاہر کے خلاف ہوتے ہیں، یعنی مثلاً گناہ کا ظاہر مزیدار لگتا ہے لیکن باطن کڑوا ہوتا ہے، ظاہر خوبصورت ہوتا ہے لیکن باطن بدصورت ہوتا ہے، ظاہر دلچسپ ہوتا ہے لیکن باطن نفرت کا باعث ہوتا ہے، جب انسان ظاہر کو چکھ لیتا ہے، دیکھ لیتا ہے، چھو لیتا ہے، استعمال کرتا ہے تو وہ کیونکہ دھوکہ اور فریب تھا تو استعمال کرنے سے مزا ختم ہوجاتا ہے، اب گناہ کا باطن اپنا اثر دکھاتا ہے تو وہ کڑواہٹ، بدصورتی اور نفرت انگیزی انسان کو گھیر لیتی ہے۔
جب انسان تقوائے الٰہی اختیار کرے اور قدم قدم پر ہر چیز اور ہر عمل کو قرآن اور اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات کی روشنی میں دیکھے تو ظاہری سجاوٹ اور خوبصورتی کے دھوکہ ہونے کو دل کی آنکھوں سے دیکھے گا اور سَر کی آنکھوں کے ذریعے دیکھنے میں جو جذبہ اور کشش پیدا ہورہی ہے اس کی کوئی پرواہ نہیں کرے گا، کیونکہ یہ کشش، حقیقت اور باطن کے خلاف ہے، گناہ کا ظاہر اگرچہ پرکشش ہے لیکن گناہ کی حقیقت دردناک،ہلاک کردینے والی زہر اور دنیا و آخرت میں تباہی کے گھاٹ اتار دینے والی مصیبت ہے۔
Add new comment