ظاہر و باطن
ظاہر کی اہمیت سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ظاہر اچھا ہوگا تو ہی باطن کی اچھائی تک رسائی ہوگی، کسی کا لباس صاف ستھرا ہوگا تبھی وہ صفائی پسند کہلائے گا، گھر باہر سے خوبصورت ہوگا تو مالک کی نفیس طبیعت کا ادراک ہوگا، بات چیت سے مزاج کا اندازہ ہو جانا معمولی بات ہے، تو یہ طے ہے کہ ظاہر کی بدولت ہی باطن کا اندازہ لگایا جاتا ہے، لیکن دونوں کا آپس میں ہماہنگ ہونا نہایت ضروری ہے۔
خلاصہ: انسان کے ظاہر اور باطن کے درمیان تعلق پایا جاتا ہے، انسان کے اعمال اس کے باطن اور صفات کی نشاندہی کرتے ہیں۔
خلاصہ: گناہ کے ظاہر اور باطن کا آپس میں فرق ہوتا ہے، اسی لیے باطن پر بھی توجہ کرنی چاہیے کہ پرکشش ظاہر انسان کو دھوکہ میں نہ ڈال دے۔
خلاصہ: گناہ کے دو پہلو ہوتے ہیں، ایک ظاہری پہلو اور دوسرا باطنی پہلو، انسان گناہ کے ظاہر کو ظاہری حواس کے ذریعے دیکھ کر دھوکہ کا شکار ہوجاتا ہے، لیکن اگر باطنی حواس اور طاقتوں کے ذریعے دیکھے تو اس سے نفرت اور دوری اختیار کرے گا، لہذا گناہ کے ظاہر پر خوش اور راضی نہیں ہوجانا چاہیے، بلکہ اس کے باطن کو دیکھ اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔
خلاصہ: گناہ اگرچہ ظاہری طور پر لذت کا باعث ہو، مگر یہ لذت شیطان اس میں ڈال دیتا ہے جو انسان کو دھوکہ دینے کے لئے ہوتی ہے، جبکہ درحقیقت گناہ کا باطن زہریلا اور نفرت کا باعث ہوتا ہے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم:
«سَیَأتی عَلی اُمَّتی زَمانٌ تَخْبُثُ فیهِ سَرائِرُهُمْ وَ تَحْسُنُ فیهِ عَلانِیَتُهُمْ طَمَعاً فِی الدُّنیا» (کافی، ج8، ص306)