ہمارے نیک اعمال بہت خوب ہیں لیکن ہمیں ہوشیار رہنا چاہیے کہ کہیں ہمارے یہ نیک اعمال ہمارے گناہوں کی وجہ سے برباد اور ساری محنت رایگاں ن نہ ہوجائے۔
بہشت کے درخت کو جلانے والی آگ:قَالَ النَّبِیُّ (ص) مَنْ قَالَ سُبحَانَ اللّٰهِ غَرَسَ اللّٰهُ لَه شَجَرَةً فِی الْجَنَّةِ فَقَامَ رَجُلٌ مِّنْ قُرَیْشٍ وَقَالَ اِنَّ شَجَرَنَا فِی الْجَنَّةِ لَکَثِیْرَةٌ قَالَ (ص) نَعَمْ وَلٰکِنْ اِیَّاکُمْ اَنْ تُرْسِلُوْا اِلَیْهَا نِیْراناً فَتُحْرِ قُوْهَا؛حضرت رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ)نے فرمایا:اگر کوئی سبّحان اللہ کہے تو خداوندِ عالم اس کے لیے بہشت میں ایک درخت لگاتا ہے "، یہ سنتے ہی قریش کاایک شخص کھڑا ہو گیا اور عرض کیا ؛ "اگر ایسا ہے تو ہمارے لیے بہشت میں بہت سے درخت ہو نگے" ، حضرت نے فرمایا؛" ہاں ، لیکن اس چیز سے ڈرنا کہ تم یہاں سے اُس کے لیے آگ بھیج کر کہیں سب کو خاکستر نہ کر دو"۔[عدة الداعی ص ۲۳۵]
گویا یہ آگ ہمارے برے اعمال کی صورت میں ہیں جو ہمارے نیک اعمال کی وجہ سے جنت میں بنے بنائے اعمال کو نابود کردیتے ہیں اسی لیے ہمیں اپنے اعمال میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ مبادا یہ برے اعمال ہمارے اچھے اعمال کی سرقت کرجائیں اور اسے کھا جائیں اور تباہ و برباد کرکے رکھدیں جیسا کہ روایت کافی دلچسپ ہے:الْحَسَدُ یَأکُلُ الْاِیْمَانَ کَمَا یَأکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ"حسد ایمان کو کھا کر نابود کر دیتا ہے جیسا کہ آگ لکڑی کو"۔[اصول کافی وعدة الداعی] اس حدیث سے سمجھ میں آتا ہے کہ کہیں ہمارے برے اعمال ہمارے اچھے اعمال کو جلانے اور برباد کرنے کے لیے ایندھن نہ بن جائیں اسی لیے ہم اپنے اعمال پر مراقب رہیں اور جنت میں اچھے اعمال کے درخت کو برے کام سے جلانے سے پرہیز کریں۔
Add new comment