خلاصہ: دین اور دینداری میں فرق پایا جاتا ہے، دینداری ایمان کو کہا جاتا ہے، اس مضمون میں اس فرق کو بیان کیا جارہا ہے۔
دین اسلام، اللہ کی طرف سے مقرر کیا ہوا دین ہے، یعنی اس کے اعتقادی اصول، شرعی احکام اور اخلاقی تعلیمات کو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے۔
دین مذکورہ احکام و قوانین اور اصول و فروع پر مشتمل ہے، مگر تدیّن یعنی دینداری کا مطلب یہ ہے کہ ان احکام کو قبول کیا جائے، اس قبول کرنے کو "ایمان" کہا جاتا ہے۔ دین کو مقرر کرنا، اللہ تعالیٰ کا کام ہے، لیکن دینداری اور ایمان، انسان کے نفس کا کام ہے۔
ایمان کو قبول کرنا نفسانی فعل اور اختیاری کام ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ آدمی کسی بات کے واضح ہوجانے کے بعد بھی اسے قبول نہ کرے یعنی اسے اپنے نفس کے ساتھ گرہ نہ لگائے اور اس کا معتقد نہ بنے، اسی وجہ سے بے ایمان اور بے عمل عالم کا مسئلہ سامنے آتا ہے، یعنی اس شخص کو بات کی سمجھ آگئی ہے، لیکن دینداری اور عمل کے موقع پر سستی اور غفلت کرتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اگرچہ علمی لحاظ سے اس کی تصدیق کرتا ہے مگر اس نے علم کو اپنی جان سے گرہ نہیں لگایا اور دل سے اس کا معتقد نہیں ہے۔
فرعون کے درباری، علمی لحاظ سے جانتے تھے کہ حضرت موسی (علیہ السلام) کے کام معجزہ ہیں، لیکن وہ ایمان نہ لائے اور انکار کردیا، سورہ نمل کی آیت 13اور 14 میں ارشاد الٰہی ہے: "فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ آيَاتُنَا مُبْصِرَةً قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ. وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوّاً فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ"، " سو جب ان کے پاس ہمارے واضح معجزات پہنچے تو انہوں نے کہا کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ اور ان لوگوں نے ظلم و تکبر کی راہ سے ان (معجزات) کا انکار کر دیا۔ حالانکہ ان کے نفوس (دلوں) کو ان کا یقین تھا۔ اب دیکھو کہ فساد کرنے والوں کا انجام کیا ہوا؟"۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[منزلت عقل در ہندسہ معرفت دینی، آیت اللہ عبداللہ جوادی آملی]
[ترجمہ آیات از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب]
Add new comment