خلاصہ: عقائد انسان کے اعمال کا سرچشمہ ہیں، لہذا اعمال کا اچھا یا برا ہونا، عقائد کے صحیح ہونے یا غلط ہونے پر موقوف ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انسان کے عقائد، زندگی میں اس کے سب نقطہ نگاہ اور موقف اختیار کرنے کی بنیاد ہیں، اسی لیے عقیدہ انفرادی اور معاشرتی زندگی میں عظیم کردار کا حامل ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ اسراء کی آیت 84 میں ارشاد فرمایا ہے: "كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِ"، "ہر شخص اپنے (عقیدتی) طریقہ پر عمل کرتا ہے"۔ اسی وجہ سے عقائد، انسان کی اندرونی شخصیت اور وجودی حقیقت کو بناتے ہیں اور یہی عقائد اسے عمل کی طرف لے جاتے ہیں اور اسے راستہ دکھاتے ہیں۔
اسی لیے اسلام ہر چیز سے پہلے عقائد کو صحیح کرنے کا اہتمام کرتا ہے اور حقیقتاً کوئی ایسا مکتب فکر نہیں ملتا جو اسلام سے بڑھ کر عقیدہ کے کردار اور اہمیت پر زور دے۔ اسلام میں "عقیدہ" سب اعمال حتی اچھے اعمال کی چھان بین کا معیار ہے، کیونکہ اچھے اعمال بھی اگر صحیح اور برحق عقیدہ سے جنم نہ لیں تو ان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "لا يَنفَعُ مَعَ الشَّكِّ وَالجُحودِ عَمَلٌ"، "شک اور انکار کے ساتھ کوئی بھی عمل فائدہ مند نہیں ہے"۔[الكافى: ج 2، ص 400 ،ح 7]۔ اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ عمل کا صحیح ہونا اور اس کا انسان کی پرورش میں فائدہ اور کردار اس بات پر موقوف ہے کہ عمل کرنے والے کا عقیدہ صحیح ہو، کیونکہ عقیدہ، عمل کی نیت کو بناتا ہے اور اسے رُخ دیتا ہے اور یہ نیت ہی ہے جو عمل کے مفہوم اور اس کے اچھے یا برے ہونے کو ثابت کرتی ہے۔
اسی وجہ سے اسلامی اعتقادات کے مطابق، موت کے بعد انسان سے پہلے سوالات جو اس کے نامہ اعمال میں درج ہوں گے، "عقائد" کے بارے میں ہیں۔
لہذامناسب ہے کہ سب اسلامی ممالک کے دینی اور تعلیمی مراکز ہر سرگرمی سے پہلے اور بڑھ چڑھ کر "عقائد" پر گفتگو، تحقیق اور علمی تقاریر منعقد کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
[ماخوذ از: دانشنامه عقايد اسلامی، محمدی ری شہری]
Add new comment