خلاصہ: خطبہ فدکیہ کی روشنی میں یہ بیان کیا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کو دو مرتبہ مبعوث فرمایا ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ فدکیہ میں ارشاد فرمایا: "اِبْتَعَثَهُ اللّهُ اِتْماماً لِأمْرِهِ، وَ عَزِيمَةً عَلَى إِمْضَاءِ حُكْمِهِ، وَ إِنْفَاذاً لِمَقَادِيرِ حَتْمِهِ"، "آپؐ کو اللہ نے مبعوث کیا اپنے امر کی تکمیل کے لئے، اور اپنے حکم کے قطعی ارادے کے لئے، اور اپنے حتمی مقدرات کو جاری کرنے کے لئے"۔
حضرت صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا) نے یہاں تک دو مرتبہ لفظ " اِبْتَعَثَهُ" فرمایا ہے، یعنی "اللہ نے آپؐ کو مبعوث کیا"۔
۱۔ "وَ اصْطَفاهُ قَبْلَ أنْ إبْتَعَثَهُ، اِذِ الْخَلائِقُ بِالْغَيْبِ مَكْنُونَةٌ...": اس فقرے میں آنحضرتؐ کی بعثت مخلوقات کی خلقت سے پہلے ہے۔
۲۔ "اِبْتَعَثَهُ اللّهُ اِتْماماً لِأمْرِهِ...": اس فقرے میں آنحضرتؐ کی بعثت مخلوقات کی خلقت کے بعد اور دنیا میں ہے۔ لہذا آنحضرتؐ کی بعثت دو مرتبہ ہوئی ہے۔
نیز آپؑ کے ان ارشادات سے دو مرحلے واضح ہوتے ہیں:
پہلا مرحلہ: اصطفاء، اجتباء اور سمّاہ، یہ علم کا مرحلہ ہے، اس کو اللہ تعالیٰ کے کام کے لحاظ سے "علمی تقدیر" کہا جاتا ہے۔
دوسرا مرحلہ: اس ارادے کو عملی طور پر جاری کرنے کے لئے آنحضرتؐ کو مبعوث کرنا، اس کو "عینی تقدیر" کہا جاتا ہے۔
بنابریں اگر رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اِس دنیا میں مبعوث نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ کے حتمی مقدرات جاری نہ ہوتے۔ اگر پہلے مرحلہ میں آنحضرتؐ کی بعثت مقدر نہ کی جاتی تو انسانوں کی خلقت بے مقصد رہ جاتی، کیونکہ آنحضرتؐ کے بغیر انسان اپنے حقیقی مقصد اور قربِ الٰہی تک نہ پہنچ سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[احتجاج، طبرسی]
[شرح خطبہ فدکیہ، آیت اللہ مصباح یزدی]
Add new comment