خلاصہ: خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے بیالیسواں مضمون تحریر کیا گیا ہے۔ تہذیب نفس کے تین مقاصد میں سے پہلا مقصد جو ذکر کیا جارہا ہے، یہ دنیا پرستی اور ہوا و ہوس ہے جس کی کوئی قیمت و قدر نہیں ہے، اور دوسرا مقصد بالکل صحیح اور مطلوب ہے، اور تیسرا مقصد انتہائی خالصانہ اور سنّت معصومین (علیہم السلام) ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ فدکیہ میں ارشاد فرمایا: "... ثُمَّ جَعَلَ الثَّوَابَ عَلَى طَاعَتِهِ، وَ وَضَعَ الْعِقَابَ عَلَى مَعْصِيَتِهِ" پھر اللہ نے ثواب کو اپنی اطاعت کے لئے قرار دیا، اور عذاب کو اپنی نافرمانی کے لئے رکھا"۔
جو شخص تہذیبِ اخلاق کرتا ہے وہ تین میں سے ایک مقصد سے اپنے اخلاق کی تہذیب کرتا ہے:
۱۔ دنیاوی فائدوں اور لوگوں کی نظروں میں محبوبیت حاصل کرنے کے لئے۔ ایسا شخص ہوسکتا ہے مثلاً نفسانی خواہشات کی روک تھام کرتا ہو یا قناعت اختیار کرتا ہو تا کہ لوگ اس کی تعریف کریں اور وہ لوگوں کی نظر میں معزز اور محبوب بن جائے، یہ تہذیب، یہ دنیا پرستی اور ہوا و ہوس ہے جس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔
۲۔ آخرت کے فائدوں اور مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے انسان تہذیبِ اخلاق اور تزکیہ نفس کرتا ہے، یعنی جنت کی نعمتوں کے حصول اور جہنم کے عذاب سے نجات پانے کے لئے، تو یہ وہی طریقہ کار ہے جس کی انبیاء (علیہم السلام) نے تبلیغ کی ہے، اور حضرت صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ فدکیہ میں بھی اسی مقصد کے متعلق ثواب اور عذاب کا ذکر ہوا ہے۔
۳۔ تہذیب اور تزکیہ نفس، توحید ناب اور اللہ تعالیٰ سے محبت کی بنیاد پر جو معصومین حضرات (علیہم السلام) کی سنّت تھی۔ سورہ دہر کی آیات ۸، ۹ میں ارشار باری تعالیٰ ہے: "وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيراً . إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُوراً"، "اور وہ اس (اللہ) کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ (اور کہتے ہیں کہ) ہم تمہیں صرف اللہ کی خوشنودی کیلئے کھلاتے ہیں نہ تم سے کوئی جزا چاہتے ہیں اور نہ شکریہ"۔
۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[احتجاج، طبرسی]
[سحر سخن و اعجاز اندیشہ، محمد تقی خلجی]
[ترجمہ آیات از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب]
Add new comment