خلاصہ: جب آیہ ذوی القربی نازل ہوئی اس وقت پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے جناب فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کو فدک بخش دیا۔
مسلمانوں نے جب ۷ ہجری کو خیبر کا قلعہ فتح کیا اور یہودیوں کی مرکزی قوت ٹوٹ گئی تو فدک کے رہنے والے یہودی صلح کے لیے پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے پاس آئے اور انہوں نے اپنی آدھی زمینوں اور باغوں کو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کےحوالے کردئیے اور آدھی اپنے پاس رکھی، اور پھر انہوں نے پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے درخواست کی کہ وہ ان زمینوں میں کاشتکاری کریں اور اپنا حق الزحمہ لیں اور پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے بھی انہیں اجازت دے رکھی تھی ان زمینوں سے جو بھی آمدنی ہوتی تھی اسے پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اپنے اوپر خرچ کرتے تھے جسے سورہ حشر نے واضح بیان کیا ہے[سورہ حشر ، آیت:۷]۔ اور پھر پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ آلہ و سلم) نے وہ ساری زمینیں اپنی بیٹی حضرت فاطمةسلام اللہ علیہا) کوبخش دیں، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے سب مانتے ہیں۔
جب آیہ ذوی القربی نازل ہوئی: فاتِ ذَا القُربیٰ حَقّہُ[سورہ حشر، آیت:۳۸] تو اس وقت پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے جناب فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کو فدک بخش دیا، ابوسعید خدری لکھتے ہیں: جب یہ آیہ کریمہ نازل ہوئی تو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کو بلایا اور کہا: یا فاطمة لکِ فدک، اے فاطمہ فدک تمہاری ملکیت ہے۔[کنز العمال، ج۲، ص۱۵۸]، حاکم نیشاپوری نے بھی اس بات کی تائید کی ہے۔[فدک، ص۴۹]۔
* کنزالعمال، ج۲، ص۱۵۸۔
کتاب فدک، ص۴۹۔
Add new comment