خلاصہ: اس تحریر میں خلافت و امامت کے چند شرائط کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ ولایت، افضلیت اور کلام معصوم کی حجیت کے سلسلہ میں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خلافت کے معنی، جانشین بنانا ہے اور لفظ خلیفہ کے معنی جانشین، وکیل اور قائم مقام کے ہیں۔ قرآن کریم میں بھی خلیفہ، خلفاء اور خلائف کے الفاظ اسی لغوی معنی میں آئے ہیں۔
خلیفہ کا تقرر ایسا کام ہے جو عقل کے عین مطابق ہے اور ہر انسان کا ضمیر خلیفہ کے تعین کا اقرار کرتا ہے۔ کیونکہ جو محنتیں صاحب منصب شخص نے کی ہوں، اس کے بعد اس کے خلیفہ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ان کو محفوظ رکھے اور ان کی ترقی و کمال کے لئے جدوجہد کرے، ورنہ اس شخص کی تمام محنتیں ضائع ہوجائیں گی۔ لہذا انسانی عقل خلیفہ کے تعین کو ضروری سمجھتی ہے۔ اب یہ سوال پیش آتا ہے کہ رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے بعد مقام خلافت پر کون فائز ہوسکتا تھا؟ اس سوال کے جواب سے پہلے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا سید المرسلین کے رتبہ پر ہر شخص فائز ہونے کی صلاحیت و لیاقت رکھتا تھا؟ یقیناً نہیں! اس کی دلیل گزشتہ انبیاء کرام کا مقام ہے کہ ان کا مقام اگرچہ عظیم ہے لیکن ہرگز آنحضرتؐ کے مقام کے برابر نہیں ہوسکتا اور قرآن و روایات میں بھی کوئی ایسی دلیل نہیں پائی جاتی جو کسی نبی کو سیدالانبیاء کے ہم پلہ سمجھے۔ ہاں قرآن کسی کو نفس رسول کہہ رہا ہے مگر وہ انبیاء کی صف میں نہیں بلکہ وہ سلسلہ امامت کی پہلی کڑی ہے جسے رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نصارائے نجران سے مباہلہ کرنے کے لئے ساتھ لے گئے اور پروردگار عالم نے قرآن کریم میں اسے نفس رسول کے اعزاز سے نوازا۔ وہ کون تھا؟ وہ وہی عظیم شخصیت تھی جسے غدیر خم کے مقام پر رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اپنے خلیفہ کے طور پر متعارف کروادیا اور سب لوگوں سے "امیرالمومنین" کا لقب کہلواتے ہوئے اقرار اور بیعت لی۔ لہذا جب رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے برابر کوئی شخص نہیں ہوسکتا تو ان کے خلیفہ کے برابر اور ہم پلہ بھی کسی شخص کا ہونا ناممکن ہے، کیونکہ خلیفہ وہی بن سکتا ہے جو اپنے مستخلف عنہ (جس کا خلیفہ ہے) کی عکاسی کرسکے، اس کے اختیارات کا حامل ہوتا ہوا اس کی ذمہ داریوں جیسی ذمہ داریاں ادا کرپائے، جو کچھ وہ کرسکتا ہے یہ بھی کرسکے۔ ورنہ وہ یقیناً اس کا خلیفہ نہیں، بلکہ من گھڑت خلیفہ ہے۔ سلسلہ نبوت کو اختتام پذیر کرنے کے بعدحکمت الہی کا تقاضا یہ تھا کہ اس طویل سلسلہ کے مقاصد اور اہداف کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور قیامت تک محفوظ رکھنے کے لئے خلافت و امامت اور جانشینی کا سلسلہ قائم کرے، ایسا سلسلہ جس کی سب کڑیاں مقام نبوت کے نہ ہونے کے باوجود ایسے عظیم مقامات کی حامل ہوں جو سلسلہ نبوت کے مقاصد کا تحفظ کرسکیں۔ ان افراد کی کچھ شرائط ہونا چاہئیں تا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسند پر بیٹھ کر خلافت کرسکیں، اور اگر ان میں ایسی شرائط نہ پائی جاتی ہوں تو وہ لائق خلافت نہیں اور اگر مسند پر بیٹھے ہوئے نظر آئیں تو غاصب خلافت ہوں گے نہ کہ صاحب خلافت۔ وہ خلفاء جو مقام نبوت کے حامل نہ ہونے کے باوجود ایسے عظیم مقامات کے حامل ہوں جو سلسلہ نبوت کے مقاصد کا تحفظ بھی کرسکیں اور معاشرے میں وہی عدل و انصاف قائم کرسکیں جو رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے قائم کیا تھا۔ اس مقالہ میں آنحضرت کے خلفا کے لئے کچھ دلائل پیش کیے جارہے ہیں تا کہ امت مسلمہ ان شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے، حقیقی خلیفہ کی جستجو کرسکے۔ واضح رہے کہ دوسرے مقالہ میں تین شرائط کی وضاحت کی جاچکی: اللہ کی طرف سے منصوب ہونا، اللہ کی طرف سے علم عطا ہونا اور عصمت کے درجہ پر فائز ہونا، لہذا اس مقالہ میں تین دیگر شرائط اور صفات بیان کی جارہی ہیں:
۱۔ ولایت: ولایت، اللہ تعالی کی بارگاہ میں ایک طرح کا تقرب اور نزدیکی ہے جس کے باعث صاحب ولایت شخص خاص طرح کا تصرف کرسکتا ہے[1]۔ اس ولایت کی دو قسمیں ہیں: ولایت تکوینی اور ولایت تشریعی۔
ولایت تکوینی: کائنات کی مخلوقات پر امام کی سرپرستی اور تصرف کو کہا جاتا ہے۔
ولایت تشریعی: قرآن کریم اور سنت نبوی کی تفسیر اور وضاحت پر امام کی سرپرستی اور معاشرہ کی قیادت ہے۔[2]
بنابریں امام اور خلیفہ وہی ہوسکتا ہے جس کے پاس یہ دونوں ولایتیں ہوں اور وہ اللہ کے اذن سے جب چاہے کائنات میں بھی تصرف کرسکتا ہے اور شریعت پر بھی اللہ تعالی کی اجازت سے ولایت رکھتا ہے۔
ولایت تکوینی کے بارے میں استاد شہید مرتضی مطہری فرماتے ہیں: ولایت تکوینی سے مراد یہ ہے کہ انسان، صراط عبودیت کو طے کرنے کے باعث قرب الہی کے مقام پر پہنچتا ہے اور مقام قرب تک پہنچنے کا نتیجہ (البتہ بلند مراحل میں) یہ ہے کہ انسانی معنویت جو خود ایک حقیقت اور واقعیت ہے، اس میں قرار پاجاتی ہے اور اس معنویت کا حامل ہوتے ہوئے، معنویات کا قافلہ سالار، ضمیروں پر غالب اور اعمال پر گواہ اور حجت زمان ہوجاتا ہے، زمین ہرگز اس ولی سے جو ایسی معنویت کا حامل ہو اور دوسرے لفظوں میں "انسان کامل" سے خالی نہیں رہی۔[3]
شہید مطہری ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں: ائمہ (ع) جس طرح کائنات پر سلطہ اور اشراف رکھتے ہیں، لوگوں پر بھی نگرانی اور غلبہ رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مومنین ان سے توسل کرتے ہیں اور ان بزرگوں سے معنوی رابطہ قائم کرتے ہوئے، ہدایت اور سعادت طلب کرتے ہیں۔ ائمہ کا باطنی ولایتی مقام (جو وہی خلافت کبری کا منصب ہے اور اللہ اور مخلوقات کے درمیان واسطہ ہے) ولایت تکوینی کہلاتا ہے۔[4]
۲۔ افضلیت: امام کو دوسرے لوگوں سے افضل ہونا چاہیے، ورنہ اگر کوئی شخص اس سے افضل اور بہتر ہو تو پھر وہی لائق خلافت و امامت ہے، نہ یہ شخص۔ جو زیادہ لائق اور افضل ہے وہی لوگوں کی بہتر ہدایت کرسکتا ہے اور لوگوں کو جو مسئلہ درپیش ہو اسے حل کرپاتا ہے۔ امام کو ہر چیز میں لوگوں سے افضل ہونا چاہیے، عبادت علم، شجاعت، اخلاقیات وغیرہ، لہذا جو خلافت کے لئے اپنی عدم صلاحیت کا اعتراف کرلے وہ کیسے خلیفہ بن سکتا ہے۔ چنانچہ اہلسنت کے علما نے نقل کیا ہے کہ جب ابوبکر سے بیعت ہوگئی تو وہ کھڑے ہوئے اور کہا: بیشک میں عام انسان ہوں اور ہرگز تم میں سے بہترین شخص نہیں ہوں تو میرا خیال رکھنا، اگر تم لوگوں نے دیکھا کہ میں سیدھے راستے پر ہوں تو میری تبعیت کرنا ورنہ مجھے سیدھے راستے پر مجبور کرنا اور جان لو کہ میرے پاس ایک شیطان ہے جو ہمیشہ مجھے گمراہ کرتا ہے۔[5]
نیز حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی افضیلت کے بارے میں خود حضرت ابوبکر کی زبانی اقرار اہلسنت کے علما نے نقل کیا ہے۔ ابن حجر ہیتمی شافعی نے لکھا ہے کہ ابن سمان نے اپنی کتاب میں جس کا نام "الموافقة "ہے، اپنی سند کے ساتھ ابن عباس سے روایت کی ہے کہ ابن عباس نے کہا: "لما جاء ابوبکر و علي لزيارة قبر النبي صلي الله عليه و آله و سلم بعد وفاته بستة ايام، قال علي لابي بکر: تقدم، فقال ابوبکر: لا اتقدم رجلا سمعت رسول الله صلي الله عليه و آله و سلم يقول فيه: علي مني کمنزلتي من ربی "[6]، "جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے چھ دن کے بعد ابوبکر اور علی آنحضرت کی قبر پر آئے تو علی نے ابوبکر سے کہا: آگے بڑھیں (آنحضرت کے روضہ مبارک کے قریب آپ پہلے جائیں) تو ابوبکر نے کہا: نہیں، کیا میں اس شخص سے آگے بڑھوں جس کے بارے میں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ آنحضرت فرماتے تھے: علی کا میرے ہاں اسی طرح مقام ہے جو مقام میرا میرے پروردگار کی بارگاہ میں ہے"۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر روضہ رسول (ص) کے لئے افضلیت کو دیکھا جاتا ہے تو کیا مسند رسول (ص) پر بیٹھنے کے لئے افضلیت کو نہیں دیکھنا چاہیے؟
۳۔ کلام کی حجیت اور اطاعت کا واجب ہونا: اس صفت کا مطلب یہ ہے کہ امام کا کلام اور امام جو اللہ کے کلام کی تفسیر بیان کرتا ہے، وہ معتبر ہوتی ہے اور اس سے اطاعت ضروری ہے۔ یہ صفت، خدا کے عطا کردہ اور لدنی علم اور آسمانی کتب کی آیات میں اللہ کے مراد کی آگاہی سے بہرہ مند ہونے کے ذریعے ہے۔[7]
معصومین (علیہم السلام) کو اللہ تعالی نے لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے اور انہوں نے لوگوں کو جو آخرت کی سعادت تک پہنچانا اور عذاب الہی سے بچانا ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ جس بات کی اس مقصد تک پہنچنے کے لئے ضرورت ہے، اسے بیان کریں اور خود بھی اس پر عمل کریں اور لوگوں کے لئے نمونہ عمل قرار پائیں، اگر ان کی بات اور عمل لوگوں کے لئے حجت نہ ہو تو یہ عظیم مقصد پورا نہیں ہوسکتا۔ اور دوسری طرف سے ہدایت کو قبول کرنے کے لئے ضروری ہے کہ لوگ معصوم کی بات اور عمل کو حجت سمجھیں اور بالکل اسی کے مطابق عمل کریں۔ اس حجیت کا لازمہ یہ ہے کہ امام کو معصوم ہونا چاہیے، کیونکہ اگر امام معصوم نہ ہو تو لوگوں پر اللہ کی حجت تمام نہیں ہوسکتی۔
دوسرے لفظوں میں کسی کی بات اور عمل کے حجت ہونے کا معیار یہ ہے کہ اس کی بات اور عمل بالکل حق کے مطابق ہو، اور حق وہی ہے جو اللہ تعالی نے چاہا ہو، اور صرف اسی شخص کی بات اور عمل مکمل طور پر حق اور اللہ کے ارادہ کے مطابق ہوسکتی ہے جو گناہ، نسیان، سہو اور خطا سے معصوم ہو۔ لہذا معصوم کی بات اور فعل بالکل وہی چیز ہے جو اللہ تعالی چاہتا ہے۔
نتیجہ: امام اور خلیفہ کے لئے کئی شرائط کا ہونا ضروری ہے جن میں سے تین شرائط یہ ہیں کہ امام کے پاس ولایت تکوینی اور ولایت تشریعی ہونی چاہیے، امام کو دیگر لوگوں سے افضل ہونا چاہیے اور نیز امام کا کلام اور عمل حجت ہے اور اس کی اطاعت واجب ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کیا مسند رسالت پر بیٹھنے والے ان صفات کے حامل تھے؟!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] المیزان فی تفسیر القرآن، ج6، ص12۔
[2] جوادی آملی، ولایت فقیه، ص125۔
[3] مجموعه آثار شهید مطهری . ج3، ص285۔
[4] امامت و رهبری، مرتضی مطهری، ص56۔
[5] المصنف عبد الرزاق ج 11 ص 336 ، الطبقات الکبری ابن منیع زهری ج 3 ص 212 ، تاریخ طبری ج 2 ص 244 ، منهاج السنه، ابن تیمیه، ج ،8 ص 266۔
[6] الصواعق المحرقہ، ص108۔
[7] شیعه در اسلام، طباطبایی، ص31 ، 32۔
Add new comment