خلاصہ: جھوٹ گناہان کبیرہ میں سے ایک گناہ ہے، انسان جھوٹ دوسروں سے حسد یا کسی سے دڑ اور خوف کی وجہ سے بولتا ہے، لیکن اگر انسان ہر حال میں اگر خدا کو مدّنظر رکھے تو وہ کبھی بھی جھوٹ نہیں بولے گا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مذہبی نقطہ نگاہ کے مطابق جھوٹ صرف اسی وقت بولا جا سکتا ہے جب انسان کو جان جانے کا خطرہ ہو اور جھوٹ بول کر جان بچنے کی امید ہو۔ جھوٹ کی یہ صورت بھی کئی دوسرے حقائق کی موجودگی کے ساتھ مشروط ہے، لیکن اپنی زندگی میں ہم جس طرح ہر لمحہ جھوٹ بول رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ ہمیں ہر وقت اپنی جان جانے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔
اپنے معاشرے کا سرسری طور پر جائزے کے بعد یہ بات آسانی کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ہمارے لیے ’جھوٹ‘ ہوا اور پانی کی طرح ناگزیر ہوچکا ہے۔ جس طرح ہم ہوا اور پانی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اسی طرح جھوٹ کی طلب بھی محسوس کرتے ہی، بلکہ ہوا اور پانی تو ہم اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کرتے ہیں لیکن جھوٹ کا استعمال ہم اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ کرتے ہیں۔
جس کے پاس ذرہ برابر بھی عقل ہے وہ اپنے دین کو دنیا کے مقابلے میں نہیں بیچے گا جو بہت جلد ختم ہوجانے والی ہے، کیونکہ جھوٹ بولنے والا کل قیامت کے دن آخرت کے دن رسوا اور شرمندہ ہونے والا ہے جس کے بارے میں امام کاظم(علیہ السلام) اس طرح فرمارہے ہیں: «إِنَّ الْعاقِلَ لا یكْذِبُ وَ إِنْ كانَ فیهِ هَواهُ، بے شک عقل مند جھوٹ نہیں بولتا، اگر چہ کہ وہ اس میں اس کی خواہش ہو »[الکافی، ج۱، ص۱۹].
*الکافی، محمد ابن یعقوب کلینی، دار الكتب الإسلامية، تھران، چوتھی چاپ، ۱۴۰۷ق۔
Add new comment