خلاصہ: دعائے کمیل کے پہلے فقرے میں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کو اس رحمت کا واسطہ دے رہے ہیں، اللہ کی رحمت دو طرح کی ہے جس کی وضاحت اس مضمون میں بیان کی جارہی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) دعائے کمیل میں اللہ تعالیٰ کو اس کی رحمت کا واسطہ دے رہے ہیں، آپؑ عرض کرتے ہیں: "اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّتِی وَسِعَتْ کُلَّ شَیْ ءٍ"، "بارالہٰا! میں تجھ سے مانگتا ہوں تیری اُس رحمت کے واسطہ سے جس نے ہر چیز کو گھیرا ہوا ہے"۔
بِرَحْمَتِکَ: "رحمت" کے معنی رقّت اور نرم دلی کے ہیں جو احسان، محبت اور نیکی کا باعث بنتی ہے۔ رقّت اور نرم دلی اللہ تعالیٰ کے لئے محال اور ناممکن ہے اور اُدھر سے رحمت کا لفظ بھی اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہوا ہے، لہذا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان پر احسان، محبت اور بھلائی کرتا ہے، جیسا کہ دیگر صفات بھی اللہ تعالیٰ کے لئے اسی طرح ہیں۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے رحمت کے معنی یہ ہیں کہ "اللہ تعالیٰ ہر حقدار کا حق اسے دیتا ہے"، اس بات کا بھی مذکورہ بالا تعریف سے تعلق ہے۔
بنابریں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے اس فقرے میں "رحمت" سے مراد، "رحمت رحمانیہ" ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی دو طرح کی رحمتیں ہیں:
۱۔ رحمت رحمانیہ: جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے سب مخلوقات کو پیدا کیا ہے اور انہیں وجود عطا فرمایا ہے، لہذا "رحمن" اسمِ خاص ہے جو اللہ کے علاوہ کسی پر بولنا جائز نہیں ہے اور یہ اللہ کی صفتِ عام ہے۔
۲۔ رحمت رحیمیہ: جس کے ذریعے عبد، اللہ تعالیٰ کا تقرّب حاصل کرتا ہے، اب تک جو شخص اللہ تعالیٰ کے مقدس حضور میں پہنچا ہے، اِسی کے ذریعے پہنچا ہے، یعنی خاص عنایت اس پر ہوئی ہے، اِس خاص عنایت کو "رحمت رحیمیہ" اور "رحمت تشریعی" وغیرہ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسمِ عام ہے جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی پر بولنا شرعاً جائز ہے اور صفتِ خاص ہے۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[ماخوذ از: آفاق نيايش تفسير دعاى كميل، آیت اللہ مظاہری دام ظلہ]
Add new comment