اللہ سے دعا کرنا، اللہ کا حکم ہے

Mon, 11/27/2017 - 12:45

خلاصہ: دعا کی اہمیت اسقدر زیادہ ہے کہ اللہ تعالی نے دعا کرنے کا حکم دیا ہے اور دعا کرنے کو عبادت کا نام دیا ہے اور جو اس عبادت میں تکبر سے کام لے گا اس کی سزا بھی اللہ نے بتادی ہے۔

اللہ سے دعا کرنا اللہ کا حکم ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انسان سر سے پاؤں تک محتاج اور ضرورتمند ہے، اسی لیے مسلسل اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے درپے رہتا ہے۔ اگر انسان گہری نظر سے دیکھے تو جان لے گا کہ اس کی ضرورتوں کو اللہ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا، بلکہ انسان کی کتنی ایسی ضروریات ہیں جن سے خود انسان بھی بے خبر ہے اور اللہ اسے ان ضروریات کی طرف متوجہ کرتا ہے۔
جب انسان کی ضروریات کو سب سے زیادہ اللہ جانتا ہے تو ان کو پورا کرنے پر بھی سب سے زیادہ اللہ ہی قادر ہے۔ اس قدرت پر ہر انسان گواہ ہے، کیونکہ زندگی میں کئی بار ہر کوئی دیکھ چکا ہے کہ کتنے مسائل اور مشکلات سے اس کا سامنا ہوتا ہے جن کو نہ خود حل کرسکتا ہے اور نہ دوسرے لوگ حل کرسکتے ہیں، لہذا انسان اپنے اور دوسروں کے عجز کو دیکھ کر آخرکار اللہ کی بارگاہ میں عجز و ناتوانی کا اقرار کرتے ہوئے اللہ کی قدرت کی گواہی دیتا ہے اور اس بے نیاز ذات کی بارگاہ میں دعا اور رازونیاز کرتا ہے۔
اُدھر سے اللہ تعالی نے بھی لوگوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اللہ کو پکاریں اور جو نہ پکارے اس کے لئے سخت سزا مقرر کی ہے۔ سورہ غافر کی آیت 60 میں ارشاد الہی ہے: "وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ"، "اور تمہارا پروردگار کہتا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا اور جو لوگ میری (اس) عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے"۔
اس آیت کریمہ سے چند نکات واضح ہوتے ہیں:
۱۔ پروردگار سے دعا کرنا، انسان کی ترقی اور پرورش کا باعث ہے، لہذا فرمایا: "وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي"، یہ نہیں فرمایا کہ "اللہ" فرماتا ہے، بلکہ فرمایا: تمہارا "پروردگار" فرماتا ہے۔       
۲۔ انسان کی دعا اور اللہ تعالی کی ربوبیت کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے، اسی لیے قرآن کریم کی اکثر دعائیں لفظ "ربّنا" کے ساتھ ہیں۔
۳۔ اللہ تعالی ہماری ضروریات کو جانتا ہے اس کے باوجود فرمایا ہے: مجھ سے دعا کرو، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا کرنے میں کچھ فائدے پائے جاتے ہیں۔
۴۔ دعا کے حکم اور قبولیت کو فاصلہ کے بغیر ذکر کیا ہے: "ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ"، یہاں تک کہ درمیان میں نہ "فاء" کا ذکر ہے نہ "ثم" کا، جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ دعا اور قبولیت میں کوئی فاصلہ نہیں ہے۔ لہذا اگر کوئی دعا قبول نہ ہو تو وہ ہمارے لیے فائدہ مند نہیں تھی، کیونکہ اللہ قادر ہونے کے ساتھ ساتھ حکیم بھی ہے۔ (دعا کے مستجاب نہ ہونے کی وجوہات کو الگ مضمون میں پیش کیا جائے گا)۔
۵۔ دعا نہ کرنا، تکبر کی علامت ہے اور تکبر کا علاج، اللہ سے دعا کرنا ہے۔
۶۔ دعا کی اہمیت اسقدر زیادہ ہے کہ یہ خود عبادت ہے اور اس عبادت میں تکبر کرنے والے کی سزا یہ ہے کہ ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہوگا۔
حوالہ:
[تفسیر نور، حجت الاسلام قرائتی]
ترجمہ آیت از: ترجمہ قرآن مولانا شیخ محسن نجفی صاحب۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
9 + 10 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 40