خلاصہ: انسان دینی مسائل پر اللہ کے حکم کے مطابق عمل کرتے ہوئے اپنے فائدہ اور نقصان کے بارے میں سوچتا ہے، مگر اس کے پاس کیونکہ صحیح معیار نہیں ہے تو وہ نقصان والے عمل میں فائدہ اور فائدے والے عمل میں نقصان سمجھ لیتا ہے، لیکن اگر اس معیار کی طرف توجہ کی جائے جو قرآن اور اہل بیت (علیہم السلام) نے بیان کیا ہے تو فائدے اور نقصان کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت 216 میں ارشاد فرمایا ہے: "عَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ"، "اور یہ ممکن ہے کہ جس چیز کو تم ناپسند کرتے ہو وہ تمہارے لئے اچھی ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ جس چیز کو تم پسند کرتے ہو وہ تمہارے لئے بری ہو"۔
اس آیت کریمہ میں انسان کی خواہش کو "محبت" اور "کراہت" کے لفظوں سے بیان کیا گیا ہے اور انسان کی فائدے اور نقصان کو "خیر" اور "شر" کے لفظوں سے ذکر کیا گیا ہے۔
انسان اپنا فائدہ اور نقصان اللہ تعالیٰ کے امر و نہی میں پاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کیونکہ انسان کا خالق ہے تو انسان کے فائدے اور نقصان کو جانتا ہے، لہذا جو انسان کے فائدے اور مصلحت کے مطابق ہے اس کی طرف انسان کو "بلایا" ہے اور جو چیز انسان کی تباہی اور بربادی کا باعث ہےاسے اس سے "روکا" ہے۔ دوسرے لفظوں میں جو کچھ انسان کے نقصان میں ہے اس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے اور جو کچھ مفید ہے اس کا حکم دیا ہے۔
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: "فَإِنَّهُ لَم يَأمُركَ إلاّ بِحَسَنٍ و لَم يَنهَكَ إلاّ عَن قَبيحٍ"، "کیونکہ اللہ تمہیں حکم نہیں دیا مگر نیکی کا اور تمہیں منع نہیں کیا مگر بری چیز سے" [نہج البلاغہ، مکتوب ۳۱]
۔۔۔۔۔۔۔۔
[ماخوذ از: پژوهشي در فرهنگ حيا، عباس پسندیدہ، ص۳۲]
Add new comment