دنیا کے حکمراں کا تعین صرف معبود کا حق

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: دنیا پر حکمرانی بھی وہی کرسکتا ہے جو حکومت کے مقاصد کو منزل مقصود تک پہنچا سکے اور ایسے شخص کی شناخت سے لوگ عاجز ہیں، لہذا صرف اللہ، حکمراں کا تعین کرسکتا ہے۔

دنیا کے حکمراں کا تعین صرف معبود کا حق

بسم اللہ الرحمن الرحیم

علامۂ اہلسنت ابن ہشام نے لکھا ہے: پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ) بعثت کے آغاز میں قبیلہ بنی عامر ابن صعصعہ کی طرف تشریف لے گئے اور انہیں اللہ عزوجل کی طرف دعوت دی اور ان سے اپنا تعارف کروایا۔ اس قبیلہ میں سے ایک شخص جسے بحیرہ ابن فراس کہا جاتا تھا، نے کہا: اللہ کی قسم! اگر میں اس جوان کو قریش سے لے لوں تو یقیناً عربوں پر غالب ہوجاوں گا، پھر اس نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) سے کہا: اگر ہم نے آپ سے امر رسالت میں بیعت کرلی، پھر خدا نے آپ کو آپ کے مخالفوں پر فتح دیدی، کیا آپ کے بعد ہمارا اس امر میں کوئی حصہ ہے اور اپنی جانشینی ہمارے سپرد کریں گے؟ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے فرمایا: "الامر الی الله  یضعه حیث یشاء"،" اس امر کا اختیار اللہ کے پاس ہے، وہ جہاں چاہے اسے قرار دیتا ہے"، اس شخص نے کہا: کیا ہم آپ کی خاطر عرب کے سامنے اپنے آپ کو قربان کردیں اور جب اللہ نے آپ کو فتح دیدی تو آپ کی جانشینی ہمارے علاوہ کسی دوسرے کے لئے ہو؟ ہمیں آپ کی رسالت کی ضرورت نہیں ہے تو ان لوگوں نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ) کی رسالت کو قبول نہ کیا۔[1] اہلسنت کی اس حدیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جانشین کے تعین کا حق صرف اللہ تعالی کے پاس ہے۔ لیکن یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ حق صرف اللہ کے پاس کیوں ہے اور لوگ خود خلیفہ مقرر کیوں نہیں کرسکتے؟ اس سوال کے کچھ جوابات دیگر تحریروں میں دیئے جاچکے، مگر اس تحریر میں کسی اور زاویہ نگاہ سے اس سوال کے جواب کی تحقیق پیش کرنا ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمی امام خمینی (علیہ الرحمہ) غدیر میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کو مقام امامت پر منصوب ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں: …" خداوند تبارک و تعالی نے دیکھا ہے کہ لوگوں میں رسول اللہ کے بعد کوئی نہیں جو ویسی عدالت کو قائم کرسکے جیسی کرنی چاہیے، جو مرضی کے مطابق ہے تو رسول اللہ کو حکم دیتا ہے کہ اس شخص (حضرت علی علیہ السلام) کو جو اس حقیقت کی طاقت رکھتے ہیں کہ عدالت کو مکمل طور پر معاشرے میں ایجاد کریں، اور ان کی ایک الہی حکومت ہو، اس کو مقرر کردیں"۔[2] بنابریں جانشین اور حکمران کا تعین اللہ کا حق ہے، مگر حکمران کو مقرر کرنا اللہ کا حق کیوں ہے؟
اگر کوئی محفل سجائی جاتی ہے، کچھ انتظامات کیے جاتے ہیں، کچھ لوگوں کی دعوت کی جاتی ہے تو یقیناً کسی مقصد کے لئے یہ سب کچھ کیا جاتا ہے اور انسان نتیجہ خیز مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسے اقدامات کرتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ وہ حکیم پروردگار جس کے تمام کاموں سے حکمت اور مصلحت برس رہی ہے، اس نے بے نیاز ہونے کے باوجود آسمان کا یہ نیلا شامیانہ کیوں تان دیا، زمین کا یہ ہرا فرش کیوں بچھا دیا، اس پر لہلہاتے ہوئے سبزہ کیوں اُگا دیئے، پتھروں کے مضبوط ڈھیر کو زمین سے نکال کر پہاڑ کی صورت میں بلند کرتے ہوئے کیوں زمین میں گاڑ دیا، زمین کی سطح سے گہرائی ایجاد کرتے ہوئے اتنا پانی کیوں نہروں، دریاوں اور سمندروں میں جاری کردیا، درختوں اور پھلوں پر طرح طرح کے رنگ لگاکر کیوں ان میں مختلف ذائقے ڈال دیے، زمین کی وسعتوں میں کیوں مختلف قسم کی مخلوقات کو پیدا کیا اور مختلف علاقوں میں پھیلا دیا، زمین کی فضاوں میں ہوائیں چلا کر آسمان کو کہکشاوں اور ستاروں سے چمکا کر اور سورج کو ایسا جگمگاتا ہوا چراغ بنا کر کیوں اس کی تپش اور روشنی کو زمین کی طرف روزانہ بھیجنے کا انتظام کردیا، مختصر یہ کہ انسان کی ہر اندرونی طاقت اور چاہت کے لئے ایسی چیزیں کیوں پیدا کردیں جس سے اس کی اندرونی اور انسانی خواہش پوری ہوجائے؟ کیونکہ اس احسن الخالقین ذات نے سورہ بقرہ میں فرمایا ہے: "هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ"[3]، "وہ خدا وہ ہے جس نے زمین کے تمام ذخیروں کو تم ہی لوگوں کے لئے پیدا کیا ہے. اس کے بعد اس نے آسمان کا رخ کیا تو سات مستحکم آسمان بنادیئے اور وہ ہر شے کا جاننے والا ہے"۔ بنابریں جو کچھ زمین میں ہے، انسان کے لئے خلق کیا گیا ہے۔ مگر یہ نہیں کہ انسان کو ان چیزوں کے لئے خلق کیا گیا ہو، اب سوال یہ ہے کہ انسان کو کیوں خلق کیا گیا ہے؟ اس سوال اور گزشتہ سوالات کے جواب تک پہنچنے کے لئے پہلے، چند مقدمے غورطلب ہیں:
پہلا نکتہ: قرآنی تعلیمات کے مطابق، جن و انس کی خلقت کا مقصد، عبادت ہے اور جیسے عبادت کرنے کے لئے جسمانی ضروریات اور دیگر تقاضوں کا صحیح اور مکمل طور پر موجود ہونا ضروری ہے اور ان تمام ضروریات کو صرف اللہ تعالی پورا کرسکتا ہے، اسی طرح عبادت کے لئے بھی کچھ مقررہ طریقے اور شرائط ہونے چاہئیں او ان کو بھی صرف اللہ ہی مقرر کرسکتا ہے کہ کیسے عبادت کی جائے۔
دوسرا نکتہ: اگرچہ کائنات کے نظام کو اللہ تعالی خود براہ راست کسی واسطہ کے بغیر چلاسکتا ہے اور اس کام پر بالکل قادر ہے اور کسی کا محتاج نہیں، لیکن پروردگار اپنی حکمت کے مطابق مختلف وسیلوں اور واسطوں کے ذریعے نظام کائنات کو چلارہا ہے۔
تیسرا نکتہ: جس طرح کائنات کے تکوینی نظام میں مختلف وسیلے مثلاً فرشتے، قرار دیئے گئے ہیں، اسی طرح کائنات کے تشریعی نظام یعنی دین، شریعت، عقائد، احکام اور اخلاق میں بھی اللہ تعالی نے کچھ وسیلے قرار دیئے ہیں جو اللہ کے حکم اور پیغام کو لوگوں تک پہنچائیں، ان احکام پر عمل کرنے کے طریقے لوگوں کو سکھائیں اور اس کے احکام کو صحیح، مکمل اور خالص طور پر اہل زمین پر جاری کریں۔
چوتھا نکتہ: مذکورہ نکات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ چونکہ عبادت، مقصد خلقت ہے اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور انسان ہر چیز کے بارے میں جہالت اور لاعلمی کا شکار ہے تو اس واحد اللہ کی عبادت کرنے کا طریقہ بھی اللہ کے علاوہ کوئی نہیں بتاسکتا، ان طریقوں کو بھی واسطہ اور وسیلہ کے ذریعہ بتانا ہے، اور جیسے انسان عبادت کے طریقہ سے جاہل ہے، واسطہ کی لیاقت و صلاحیت کو پہنچاننے سے بھی جاہل ہے، نہ اس کے پاس معیار ہیں اور نہ معیاروں پر پورا اترنے والے وسیلہ سے واقف ہے۔ لہذا صرف اللہ ہی وسیلہ کا تعین کرسکتا ہے۔
پانچواں نکتہ: اللہ تعالی جس وسیلہ کا تقرر کرے گا، اس کو ایسے اختیارات، طاقتیں اور علم عطا کرے گا جس کے ذریعے وہ وسیلہ اللہ کے احکام کو لوگوں تک پہنچا سکے۔ نیز ان اختیارات کے بدلے اس پر عظیم ذمہ داری عائد کردے گا، ایسی ذمہ داری جس کو مکمل طور پر ادا کرپانے پر کوئی دوسرا شخص نہ جسمانی طاقت کے لحاظ سے قوت کا حامل ہے اور نہ ایسی عقلی بلندی پر فائز ہے کہ اس ذمہ داری کی اہمیت اور عظمت کا تصور تک کرسکے۔
ان پانچ مقدموں کے پیش نظر یہ نتیجہ ملتا ہے کہ اللہ تعالی اپنی عبادت کروانے کے لئے جس وسیلہ کو عبادت کے طریقوں کی تعلیم دینے کے لئے مقرر کرے گا، اس کی بھی شان و عظمت کا ادراک انسانی عقلوں سے کوسوں دور ہے۔ لہذا وہی شخص جو خالق اور مخلوق، معبود اور عابدوں کے درمیان واسطہ ہے اور ان کو عبادت کی تعلیم دینے والا ہے، جب تک وہ تعلیم نہ دے تب تک ہر شخص، اللہ کی عبادت کرنے سے بالکل عاجز ہے، اگرچہ وہ اپنے خیال کے مطابق کچھ ایسی حرکات میں مصروف ہے جسے عبادت سمجھتا ہے، لیکن درحقیقت نہ وہ عبادت کررہا ہے اور نہ معبود کو جانتا ہے کیونکہ اس نے اس معلم سے تعلیم نہیں لی اور اس استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہیں کیا جس کو اللہ نے عبادت کا طریقہ سکھایا ہے۔ لہذا حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "بعبادتنا عُبد الله و لولانا ما عُبدالله[4]"، "ہماری عبادت سے اللہ کی عبادت کی گئی اور اگر ہم نہ ہوتے تو اللہ کی عبادت نہ کی جاتی"۔
شیطان کی زیرسرپرستی دیگر جن و انس کے شیاطین مل کر اللہ کی عبادت کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں، اگر رکاوٹیں وسیع پیمانے پر ہوں تو پورے معاشرے، سارے ملک اور دنیابھر کو جکڑ دیں گی۔ اسی لیے ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو اللہ کی عبادت کرنے کا راستہ ہموار کرے، ضروریات کو فراہم کرے اور رکاوٹوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کی جڑ اکھاڑ دے تاکہ انسان جسمانی اور قلبی سکون کے ساتھ اللہ کی عبادت کرپائے۔ وہ حکومت کیسی ہونی چاہیے؟ اس حکومت کے سربراہ اور انتظامیہ کیسے افراد ہونے چاہئیں؟
واضح ہے کہ جب حکومت کرنے کا مقصد اپنی نفسانی خواہشات تک پہنچنا اور دنیاوی عیش و عشرت کا حصول نہ ہو، بلکہ حکومت کرنے کا مقصد اللہ کی عبادت ہی کو زمین پر قائم کرنا ہو، حکمراں کا انتخاب لوگوں پر نہیں چھوڑا جائے گا بلکہ ضروری ہوگا کہ ایسی حکومت کے حکمراں، اللہ کی طرف سے مقرر ہوں۔ ایسے حکمراں جو اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے اللہ کے تمام احکام و فرامین کو لوگوں پر نافذ کریں، جو ایسی عصمت کے درجہ پر فائز ہوں کہ خود بھی گناہ نہ کریں اور دوسروں کو بھی گناہ کے ارتکاب سے منع کریں، جو ایسی طاقت کے حامل ہوں کہ ظالم سے مظلوم کا حق واپس دلوا کر ظلم کا خاتمہ کردیں اور زمین پر عدل و انصاف قائم کریں، ایسے علم کے حامل ہوں جو نماز، روزہ، حج، زکات اور دیگر اسلامی تعلیمات کو معاشرہ میں نافذ کریں۔
کیا آج تک تاریخ ایسے افراد کے نورانی چہرے کی زیارت کرپائی ہے یا غم کے آنسو بہاتی ہوئی انتظار کررہی ہے کہ کوئی دن ضرور آئے گا جب اللہ کی طرف سے مقرر معصوم انسان، اللہ کی زمین پر حکومت کرے گا اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھردےگا، اس لیے کہ اللہ کا وعدہ حق ہے اور اللہ نے اپنی لاریب کلام میں فرمایا ہے: "وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُون[5]"، "اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان و عمل صالح سے وعدہ کیا ہے کہ انہیں روئے زمین میں اسی طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے اور ان کے لئے اس دین کو غالب بنائے گا جسے ان کے لئے پسندیدہ قرار دیا ہے اور ان کے خوف کو امن سے تبدیل کردے گا کہ وہ سب صرف میری عبادت کریں گے اور کسی طرح کا شرک نہ کریں گے اور اس کے بعد بھی کوئی کافر ہوجائے تو درحقیقت وہی لوگ فاسق اور بدکردار ہیں"۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد حکومت، اس امام کے مقامات میں سے ایک مقام ہے جو اللہ کی جانب سے مقرر کیا گیا ہو۔ حکومت کبھی تو امام کے پاس تھی اور وقوع پذیر ہوئی جیسے حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی حکومت اور حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کی حکومت، اور کبھی ایسا نہیں تھا، جیسے دیگر ائمہ اطہار (علیہم السلام) جن پر وقت کے ظالم حکمرانوں کے ظلم و تشدد ہوئے یا ان کے قیدخانوں اور دباوَ میں رہے، یا جیسے حضرت امام زمان (علیہ السلام) جو غیبت کے پردہ میں ہیں اور اگرچہ ظاہری طور پر حکومت نہیں کررہے مگر ان کی امامت محفوظ ہے۔
نتیجہ: غدیر میں جیسے ولایت کا تعین ہوا، اسی طرح سے دنیا پر اسلامی حکومت کرنے والے حکمراں کا بھی تعین ہوگیا، وہی حکمراں جو اللہ کے تمام احکام و فرامین کو لوگوں پر نافذ کرتا ہوا، خود بھی اللہ کی عبادت کرتا ہوا لوگوں کو اللہ کی عبادت کی طرف ہدایت کرکے انسانیت کو مقصد خلقت تک پہنچا سکے، جو اللہ تعالی کی عبادت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] السیره النبویه، ابن هشام، ج2 ص272۔
[2] صحیفه امام، ج‏20، ص112۔
[3] سورہ بقرہ، آیت 29۔
[4] الکافی، ج 1، ص193۔
[5] سورہ نور، آیت 55۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
17 + 3 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 36