خلاصہ: نہج البلاغہ کی تشریح کرتے ہوئے ان دو فقروں کی مختصر وضاحت کی جارہی ہے جس میں حضرت علی (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں مخلوق کی ہمتوں کی بلندی اور ذہانتوں کی گہرائی کے عاجز ہونے کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔
حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نہج البلاغہ کے پہلے خطبے میں اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے چند فقروں کے بعد ارشاد فرماتے ہیں:
"اَلَّذِي لاَ يُدْرِكُهُ بُعْدُ الْهِمَمِ، وَلاَ يَنَالُهُ غَوْصُ الْفِطَنِ"، "نہ ہمتوں کی بلندیاں اس کا ادراک کرسکتی ہیں اور نہ ذہانتوں کی گہرائیاں اس کی تہ تک جاسکتی ہیں"۔
"ھِمَمْ"، "ھمّت" کا جمع ہے، جو اصل میں پگھلنے اور جاری ہونے کے معنی میں ہے اور پریشانی کو اس لیے "ھمّ" کہا جاتا ہے کہ انسان کے جسم اور جان کے پگھلنے کا باعث ہوتی ہے، پھر ہر اُس چیز کو جو اہمیت کی حامل ہے یا انسان کی سوچ کو اپنے میں مصروف کردیتی ہے اور حرکت کا باعث ہوتی ہے، اسے "ھمّ" اور "ھمّت" کہا گیا ہے۔
"غوص": اصل میں پانی میں غوطہ لگانے کے معنی میں ہے، پھر ہر اہم کام میں داخل ہونے کو بھی کہا گیا ہے۔
"فطن": "فطنۃ" کا جمع ہے، اس کے معنی فہم اور ذکاوت ہے۔
حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نے ان فقروں میں دو صفات کا تذکرہ فرمایا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہی اللہ جس کی کنہِ ذات کا بلند اور گہری سوچ والی افکار ادراک نہیں کرسکتیں، اور مختلف علوم کے سمندر میں غوطہ لگانے والے صاحبانِ فہم و ذہانت کی اُس کے وجود کے کمال تک رسائی نہیں ہے۔
"بعد الھمم" اور "غوص الفطن" گویا اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اگر بلند افکار قوس صعودی میں اور طاقتور ذہانتیں قوس نزولی میں حرکت کریں تو کوئی ایک بھی مقصد تک نہیں پہنچیں گی اور اللہ تعالیٰ کی کنہِ ذات کا ادراک کرنے سے عاجز اور ناتواں ہیں۔ [ماخوذ از: پيام امام امير المومنين(ع)، ج1، ص76]
۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[ماخوذ از: پيام امام امير المومنين(ع)، آیت اللہ مکارم شیرازی، ناشر: دار الكتب الاسلاميه، تہران، 1386 ه. ش، پہلی چاپ]
Add new comment