خلاصہ: نہج البلاغہ میں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے پہلے خطبہ کے پہلے فقرہ سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ کی مدح سے مخلوق عاجز ہے، اگر سب مدح کرنے والے مدح کریں تب بھی اللہ کی مدح تک رسائی نہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ کی تشریح کرتے ہوئے یہ دوسرا مضمون پیش کیا جارہا ہے جس میں پہلے فقرہ کی وضاحت کی جارہی ہے۔ پہلے مضمون میں حمد کے بارے میں گفتگو ہوئی اور اِس مضمون میں اللہ کی حمد اور مدح کے سلسلہ میں گفتگو کی جارہی ہے۔ نہج البلاغہ کے پہلا خطبہ کی ابتدا اللہ کی حمد اور مخلوق کا اللہ کے سامنے عاجز ہونے کے بارے میں ہے۔ پہلے خطبہ کے پہلے فقرہ میں آپؑ کا ارشاد یہ ہے: "الحَمْدُ للهِ الَّذَي لاَ يَبْلُغُ مِدْحَتَهُ القَائِلُونَ" ، " ساری حمد اس اللہ کے لئے ہے جس کی مدح تک بولنے والوں کی رسائی نہیں"۔
تشریح:
خطبہ کے آغاز میں اللہ کی حمد کرنا، سیرت معصومین (علیہم السلام): جیسے نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ کا حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے اللہ کی حمد سے آغاز کیا ہے، یہ سیرت، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کے مطابق ہے۔ حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "كانَ رَسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله إذا خَطَبَ حَمِدَ اللّه َ وأثنى عَلَيهِ "[1]، "رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب خطبہ پڑھا کرتے تھے تو (پہلے) اللہ کی حمدو ثناء کرتے تھے"۔ نیز روایات میں دیگر معصومین (علیہم السلام) کے کلام اور خطبہ کے آغاز میں اللہ کی حمد ملتی ہے۔
حمد اور مدح کی تعریف: حمد، مدح اور شکر کے درمیان پائے جانے والے فرق کے بارے میں علماء کے مختلف نظریات ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ انسان جو اختیار سے نیک اعمال کرتا ہے اور جو صفات اس میں رکھے گئے ہیں، اس کے بارے میں لفظ مدح استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اونچے قد اور چہرہ کی خوبصورتی پر انسان کی مدح کی جاتی ہے جیسا کہ سخاوت اور علم پر اس کی مدح کی جاتی ہے، جبکہ حمد دوسرے (سخاوت و علم) سے متعلق ہے نہ کہ پہلے سے اور شکر صرف نعمت کے بدلہ میں کیا جاتا ہے، لہذا ہر شکر حمد ہے، لیکن ہر حمد شکر نہیں ہے، نیز ہر حمد، مدح ہے، لیکن ہر مدح حمد نہیں ہے۔[2]
امیرالمومنین (علیہ السلام) نے اللہ کی حمد کیوں کی ہے: آپؑ نے اللہ کی حمد کو ہر بات سے پہلے ذکر کیا ہے، جس کا راز یہ ہوسکتا ہے کہ آپؑ لوگوں کو ہر بات کے آغاز میں اللہ کی حمد کرنے اور اس کی نعمتوں کا اقرار کرنے کی راہنمائی کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اللہ تعالی کے جلال اور عظمت کی طرف توجہ کرنا سب حالات میں ضروری ہے۔ حمد میں شکر کے معنی پائے جاتے ہیں اور حمد کا معنی شکر سے زیادہ وسیع ہے اور وسیع معنی سے مراد مطلق تعظیم ہے اور یہ حمد کی سب اقسام کی وجہ سے ہے، کیونکہ اللہ کی مطلق تمجید کے بارے میں گفتگو ہورہی ہے۔[3]
حمد کے بارے میں چند نکات: قرآن اور احادیث میں حمد کے بارے میں چند نکات قابل غور ہیں:
۱۔ قرآن اور احادیث میں لفظ حمد، اللہ کی ذاتی فضیلت کے طور پر استعمال ہوا ہے،[4] جیسے: "الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَ لَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ "۔
۲۔ اللہ تعالی کی حمد، اس کی معرفت اور پہچان پر موقوف ہے، اسی لیے اللہ کی حمد کی حقیقت اور اس کے کمال کا معرفت کی مقدار سے براہ راست تعلق ہے۔ اللہ کے جمال اور جلال کی معرفت جس قدر زیادہ ہوتی جائے، حمد کرنے والے کی حمد، زیادہ مکمل ہوتی جائے گی، بنابریں اللہ کی بہترین حمد، خود اللہ ہی اپنی کرسکتا ہے، جیسا کہ دعائے جوشن کبیر میں ہے: "يَا خَيْرَ حَامِدٍ وَ مَحْمُودٍ"، اے بہترین حمد کرنے والا اور بہترین حمد ہونے والا"۔
۳۔ جن احادیث نے حمد کو "حقِ شکر" یا "تمامِ شکر" یا "وفائے شکر" میں تفسیر کیا ہے، اس سے مراد زبانی شکر ہے، یعنی اگر لفظ "حمد" معرفت کے ساتھ زبان پر جاری ہو تو زبان کا شکرکرنے کے لحاظ سے فریضہ حقیقتا ادا ہوا ہے۔لہذا دیگر احادیث میں جو اللہ کی نعمتوں پر عملی شکر کے ضروری ہونے کی تاکید ہوئی ہے، مذکورہ تفسیر اس کی نفی نہیں کرتی، بلکہ سچی حمد موجب بنتی ہے کہ حمد کرنے والا، اللہ کی نعمتوں پر عملی طور پر بھی شکر کرے۔
حمد قرآن کے آئینہ میں: قرآن کریم میں اللہ کی حمد ۴۳ آیات میں مختلف انداز میں ذکر ہوئی ہے۔ اللہ تعالی نے چودہ آیات میں اپنی حمد کی ہے[5]، تیرہ آیات میں اپنی حمد کا حکم دیا ہے[6] (چھ بار تسبیح کے بغیر اور سات بار تسبیح کے ساتھ)۔ سولہ آیات میں انبیاء[7]، مومنین[8]، ملائکہ[9]،اہل جنت[10]، اہل قیامت[11]، رعد[12] اور سب چیزوں[13] کی زبانی اللہ کی حمد ہوئی ہے۔ سترہ آیات[14] میں اللہ کی صفت "حمید" کا تذکرہ ہوا ہے۔
حمد احادیث کے آئینہ میں: روایات میں مختلف کاموں سے پہلے یا بعد میں اللہ کی حمد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جیسے خطبہ پڑھنے کی ابتداء میں، اہم بات شروع کرتے ہوئے، کھانے پینے کے بعد، نیند سے جاگنے کے بعد، چھینک لینے کے بعد، نئے کپڑے پہنتے ہوئے، آئینہ میں چہرہ دیکھتے ہوئے، بیت الخلاء سے فارغ ہونے کے بعد، سواری پر بیٹھتے ہوئے، روزہ افطار کرتے ہوئے، عقد کا خطبہ پڑھتے ہوئے، ہر حال میں اور کچھ دیگر موقعوں پر جن کا روایات میں ذکر ہوا ہے۔[15]
اللہ کی مدح سے عاجزی کی وجہ: علامہ ابن میثم (علیہ الرحمہ) کا کہنا ہے کہ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نے یہ جو فرمایا ہے: "لاَ يَبْلُغُ مِدْحَتَهُ القَائِلُونَ"، "جس کی مدح تک بولنے والوں کی رسائی نہیں"، اس سے آپؑ کا مراد یہ ہے کہ انسان کی سوچ اس بات سے آگاہ ہوجائے کہ اللہ کی حمد اور تنزیہ کرنے کا جو حق ہے، وہ کیسے کیا جائے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ کسی چیز کی لائق ثناء تب ممکن ہے کہ اس چیز کی کنہ کا علم حاصل ہو اور واجب الوجود کے بارے میں ایسا نہیں ہوسکتا مگر یہ کہ اللہ تعالی کی ذات اور جلال و کمال کے صفات کی حقیقت، جیسی ہے وہی سوچ میں آجائے اور واضح ہے کہ انسان کی سوچ اس حد تک پہنچنے سے عاجز ہے۔لہذا اگرچہ حمد کرنے والوں کی طرف سے کچھ باتیں حمد کے طور پر متعارف اور عادت کے مطابق وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں اور اللہ کی اچھی صفات سے تعریف کی جاتی ہے، لیکن درحقیقت یہ اللہ کی مکمل حمد نہیں ہے، کیونکہ جو اللہ کی حقیقی حمد ہے، لوگ اس کا علم نہیں رکھتے… آپؑ کا یہ ارشاد لوگوں کو اس بات سے آگاہ کرتا ہے کہ لوگوں کے ذہن نے جو صفات اپنی مرضی سے بنائی ہیں وہ باطل ہیں اور جیسا وہ سمجھتے ہیں حقیقت ویسی نہیں ہے۔
اللہ کی حمد اور مدح سے مخلوق کا عجز: کیسے حمد کرنے والے اللہ کی حمد کرسکتے ہیں جبکہ مدح کرنے والا شخص تب کسی شخص کی صحیح مدح کرسکتا ہے کہ اس کے وجودی کمالات پر احاطہ کیے ہوئے ہو، اسی لیے جاہل ہرگز عالم کی صفات بیان نہیں کرسکتا، اسی طرح ہر مخلوق اللہ کی حمد و مدح اپنی حدِمعرفت تک کرسکتی ہے اور کیونکہ اللہ کی ذات کے کمالات کا مکمل علم، خود اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے تو صرف وہ خود ہی اپنی حمد اسی طرح کرسکتا ہے جیسے حمد کرنے کا حق اور جیسے وہ لائق حمد ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ جملہ منقول ہے: "اللّهُمَّ . . . لا اُحصي ثَناءً عَلَيكَ ، أنتَ كَما أثنَيتَ عَلى نَفسِكَ[16]"، "بارالہا…میں تیری ثناء نہیں کرسکتا، تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے اپنی ثناء کی ہے"، دوسرے لحاظ سے دیکھا جائے تو وہی چیز ممکن ہوتی ہے جو محدود ہو، لیکن اگر کوئی چیز بے حد اور بے انتہا ہوجائے تو اس کے آخر تک نہیں پہنچا جاسکتا، حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں: "لا غايةَ لِمَدحِكَ[17]"، "تیری مدح کی کوئی انتہا نہیں ہے"، لہذا جب اللہ کی مدح کی کوئی انتہا نہیں تو مدح کرنے والے کیسے اس کی مدح تک پہنچ سکتے ہیں۔ لہذا امیرالمومنین (علیہ السلام) اور حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے کلام کو ملا کر یہ نتیجہ ملتا ہے کہ نہ اللہ کی مدح کی انتہا ہے اور نہ اللہ کی مدح تک بولنے والوں کی رسائی ہے۔
اللہ کی مدحت سے عجز دیگر معصومین (علیہم السلام) کے کلام میں: حضرت سیدالساجدین (علیہ السلام) بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں: "أُثني عَلَيكَ يا سَيِّدي ، وما عَسى أن يَبلُغَ في مِدحَتِكَ ثَنائي مَعَ قِلَّةِ عَمَلي وقِصَرِ رَأيي، وأنتَ يا رَبِّ ، الخالِقُ وأنَا المَخلوقُ[18]"، اے میرے آقا، میں تیری ثناء کرتا ہوں، لیکن اس قلیل عمل اور چھوٹی سوچ کے ساتھ کہاں میری ثناء تیری مدحت تک پہنچ سکتی ہے، اے میرا پروردگار تو خالق ہے اور میں مخلوق ہوں۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) اللہ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: "لا إلهَ إلّا أنتَ جَلَّ ثَناؤُكَ ، ولا اُحصي مِدحَتَكَ ولَا الثَّناءَ عَلَيكَ ، أنتَ كَما أثنَيتَ عَلى نَفسِكَ ، وفَوقَ ما يَقولُ القائِلونَ[19]"، "تیرے سوا کوئی معبود نہیں، بلند ہے تیری ثناء، میں نہ تیری مدحت کو شمار کرسکتا ہوں اور نہ تیری ثناء کو، تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے اپنی ثناء کی ہے اور تو بولنے والوں کی باتوں (ثناء) سے بالاتر ہے"۔ نیز آپؑ ہی اللہ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: "لا يَبلُغُ مِدحَتَكَ قَولُ قائِلٍ ، أنتَ كَما تَقولُ وفَوقَ ما نَقولُ[20]"، "بولنے والے کی باتیں تیری مدحت تک نہیں پہنچ سکتیں، تو ویسا ہے جیسے خود کہتا ہے اور جو ہم کہتے ہیں اس سے بالاتر ہے"۔
نتیجہ: حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کے اس کلام کو دیگر روایات کی روشنی میں دیکھنے سے واضح ہوتا ہے کہ مخلوق اللہ تعالی کی نہ حمد اس طرح کرسکتی ہے جیسے وہ حمد کے لائق ہے اور نہ مدح اس طرح کرسکتی ہے جیسے وہ مدح کے لائق ہے، لہذا مکمل، صحیح، بہترین اور شایانِ شان وہی حمد اور مدح ہے جو وہ اپنی خود کرتا ہے، اور ہمیں چاہیے کہ اہل بیت (علیہم السلام) کی دعا و مناجات کے مطابق اللہ کی حمد و مدح کریں اور ساتھ ساتھ انسان کے ذہن میں یہ بات رہے کہ میں اللہ کی حمد و مدح کرنے سے عاجز ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] نهج الذكر، ج2، ص292۔
[2] نہج الذکر، ج2، ص182 سے ماخوذ۔
[3] ماخوذ از: شرح نہج البلاغہ، ابن میثم بحرانی.
[4] نهج الذكر، محمدی ری شہری، ج2، ص183۔
[5] فاتحہ، آیت1 ، انعام ، آیت1 و 45 ، نحل ، آیت75 ، اسراء ، آیت111 ، كہف ، آیت1 ، قصص ، آیت70 ، روم ، آیت18 ، سبأ ، آیت1 ، فاطر ، آیت1 ، صافّات ، آیت182 ، زمر ، آیت29 ، غافر ، آیت65 ، جاثيہ ، آیت36.
[6] اسراء ، آیت111 ، مؤمنون ، آیت28 ، نمل ، آیت59 و 93 ، عنكبوت ، آیت63 ، لقمان ، آیت25 ، حجر ، آیت98 ، طہ ، آیت130 ، فرقان ، آیت58 ، غافر ، آیت55 ، ق ، آیت39 ، طور ، آیت48 ، نصر ، آیت3 .
[7] إبراہيم ، آیت39 ، نمل ، آیت15.
[8] توبہ ، آیت112 ، سجدہ ، آیت15.
[9] بقرہ ، آیت30 ، زمر ، آیت75 ، غافر ، آیت7 ، شورى ، آیت5.
[10] اعراف ، آیت43 ، يونس ، آیت10 ، فاطر ، آیت34 ، زمر ، آیت74.
[11] اسراء ، آیت52.
[12] رعد ، آیت13.
[13] اسراء ، آیت44 ، تغابن ، آیت1.
[14] بقرہ ، آیت267 ، نساء ، آیت131 ، ہود ، آیت73 ، إبراہيم ، آیت1 و 8 ، حجّ ، آیت24 و 64 ، لقمان ، آیت12 و 26 ، سبأ ، آیت6 ، فاطر ، آیت15 ، فصّلت ، آیت42 ، شورى ، آیت28 ، حديد ، آیت24 ، ممتحنہ ، آیت6 ، تغابن ، آیت6 ، بروج ، آیت8.
[15] مذکورہ مقامات پر حمد کرنے کی تفصیلات کے لئے ملاحظہ فرمائیے: کتاب نہج الذکر، محمدی ری شہری۔
[16] نہج الذکر، ج2، ص314۔
[17] مصباح المتہجّد : ص 311 ح 419.
[18] بحار الأنوار، ج 98، ص 228، ح 4۔
[19] مصباح المتهجّد : ص 838 ح 899۔
[20] نهج الذكر، ج2، ص414۔
Add new comment