رسول اللہ (ص) کی عظیم شخصیت نہج البلاغہ کے چار خطبوں کی روشنی میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے نہج البلاغہ میں منقول خطبات میں سے چار خطبوں کے وہ حصے جن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں تذکرہ ہوا ہے، اس مضمون میں نقل کیے گئے ہیں۔

رسول اللہ (ص) کی عظیم شخصیت نہج البلاغہ کے چار خطبوں کی روشنی میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اِس مضمون میں صرف نہج البلاغہ میں جو حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی زبان مبارک سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بیان ہوا ہے، پیش کیا جارہا ہے۔ خطبات نمبر 196، 211، 232، 233۔
خطبہ
196 میں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے برگزیدہ اس کی وحی کے ترجمان اور رحمت کے پیغامبر ہیں …  پھر یہ کہ اللہ سبحا نہ، نے محمد کو اس وقت حق کے ساتھ مبعوث کیا جب کہ فنا نے دنیا کے قریب ڈیرے ڈال دیئے اور آخرت سر پر منڈلانے لگی اس کی رونقوں کا اجالا اندھیرے سے بدلنے لگا اور اپنے رہنے والوں کے ليےمصیبت بن کر کھڑی ہو گئی۔اس کا فرش درشت ونا ہموار ہوگیا اور فنا کے ہاتھو ں میں باگ ڈور دینے کے ليےآمادہ ہو گئی۔ یہ اس وقت کہ جب اس کی مد ت اختتام پذیر اور (فنا کی )علامتیں قریب آگئیں، اس کے بسنے والے تباہ اور اس کے حلقہ کی گڑیاں الگ ہو نے لگیں۔اس کے بندھن پراگندہ اور نشانات بوسیدہ ہوگئے، اس کے عیب کھلنے اور پھیلے ہوئے دامن سمٹنے لگے۔اللہ نے ان کو پیغام رسانی اور امت کی سرفرازی کا ذریعہ اہل عالم کے ليےبہار اور یارو انصار کی رفعت و عزت کا سبب قرار دیا۔ پھر آپ پر ایک ایسی کتاب نازل فرمائی جو (سراپا ) نور ہے جس کی قندیلیں گل نہیں ہوتیں،ایسا چراغ ہے جس کی لو خاموش نہیں ہوتی، ایسا دریا ہے جس میں راہ پیمائی بے راہ نہیں کرتی،ایسی کرن ہے جس کی پھوٹ مدہم نہیں پڑتی…
خطبہ 211 میں فرماتے ہیں: اللہ نے انہیں روشنی کے ساتھ بھیجا اور انتخاب کی منزل میں سب سے آگے رکھا تو ان کے ذریعہ سے تمام پراگندگیوں اور پریشانیوں کو دور کیا اور غلبہ پانے والوں پر مسلّط جمالیا۔مشکلوں کو سہل اور دشواریوں کو آسان بنا یا۔یہاں تک کہ دائیں بائیں (افراط وتفریط) کی سمتوں سے گمراہی کو دور ہٹایا۔
خطبہ 232 میں فرماتے ہیں: (رسول ﷺ کو غسل و کفن دیتے وقت فرمایا:) یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ کے رحلت فرما جانے سے نبوت، خدائی احکام اور آسمانی خبروں کا سلسلہ قطع ہو گیا جو کسی اور (نبی(کے انتقال سے قطع نہیں ہوا تھا۔ (آپ نے) اس مصیبت میں اپنے اہلبیت کو مخصوص کیا۔ یہاں تک کہ آپ نے دوسروں کے غموں سے تسلی دے دی اور (اس غم کو(عام بھی کر دیا کہ سب لوگ آپ کے (سوگ میں ) برابر کے شریک ہیں۔ اگر آپ نے صبر کا حکم اور نالہ و فریاد سے روکا نہ ہوتا تو ہم آپ کے غم میں آنسوؤں كا ذخیرہ ختم کر دیتے اور یہ درد منت پذیر درماں نہ ہوتا اور یہ غم و حزن ساتھ نہ چھوڑتا (پھر بھی یہ) گریہ و بکا اور اندوہ حزن آپ کی مصیبت کے مقابلہ میں کم ہوتا۔ لیکن موت ایسی چیز ہے کہ جس کا پلٹانا اختیار میں نہیں ہے اور نہ اس کا دور کرنا بس میں ہے۔ میرے ماں باپ آپ پر نثار ہوں۔ ہمیں بھی اپنے پروردگار کے پاس یاد کیجئے گا۔ اور ہمارا خیال رکھئے گا۔
خطبہ 233 میں فرماتے ہیں: میں رسول (ص) کے راستہ پر روانہ ہوا، اور آپ کے ذکر کے خطوط پر قدم رکھتا ہوا مقامِ عرج تک پہنچ گیا۔[1] ،[2]
نتیجہ: ان خطبوں میں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کہیں پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گواہی دیتے ہیں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظیم صفات بیان فرماتے ہیں اور کہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت پر غم انگیز جملات فرماتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] مذکورہ خطبوں کے سب ترجمے علامہ مفتی جعفر حسین (اعلی اللہ مقامہ) کے ترجمہ نہج البلاغہ سے یہاں پر نقل ہوئے ہیں۔
[2] مطالب میں لکھائی کی غلطیاں پہلے سے لکھی گئی تحریر جو نیٹ میں موجود ہے، سے چلی آرہی ہیں۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
5 + 5 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 45