خلاصہ: آیت مباہلہ وہ آیت ہے جو اس وقت نازل ہوئی جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصرانیوں سے حضرت عیسی (علیہ السلام) کے عبد اور اللہ کا بندہ ہونے کے سلسلے میں گفتگو ہوئی، مگر نصرانیوں نے حق کے واضح ہوجانے کے باوجود حق کے سامنے تسلیم نہ ہوئے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دسویں ہجری میں کچھ افراد، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے یمن کے شہر نجران میں اسلام کی تبلیغ کے لئے بھیجے گئے، نجران کے عیسائیوں نے بھی سید، عاقب اور اباحارثہ جیسے افراد کو اپنی نمائندگی میں، پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گفتگو کے لئے مدینہ بھیجا۔[1]
نجران کا وہ گروہ مدینہ میں داخل ہوا اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کی، انہوں نے کہا: اے محمد! کیا آپ ہمارے صاحب اور سرور کو جانتے ہیں؟ آنحضرت نے فرمایا: "تمہارا صاحب کون ہے"؟ انہوں نے کہا: عیسی ابن مریم۔ آپ نے فرمایا: "وہ اللہ کے عبد اور اس کے رسول ہیں"۔ انہوں نے کہا: "پھر جسے اللہ نے خلق کیا ہے اس میں اور جو کچھ آپ نے دیکھا اور سنا ہے اس میں، اس کی مثال ہمیں دکھائیں"۔ جبرئیل (علیہ السلام) نے پیغمبر اکرم (صلی للہ علیہ وآلہ وسلم) پر آیت نازل کی: "إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّـهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ [2]"، " عیسٰی علیہ السّلام کی مثال، اللہ کے نزدیک آدم علیہ السّلام جیسی ہے کہ انہیں مٹی سے پیدا کیا اور پھر کہا ہوجا اور وہ ہوگیا "، انہوں نے کہا: کیا آپ نے ہمارے صاحب جیسا اب تک سنا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، انہوں نے کہا: وہ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: آدم، پھر آپ نے مذکورہ آیت پڑھی، انہوں نے کہا: وہ ایسے نہیں ہیں جیسا آپ کہہ رہے ہیں، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا: "تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ"[3]، "آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں کو بلائیں"۔
جب نجران کے عیسائی، حضرت عیسی (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا سمجھتے ہوئے اپنی اس باطل بات پر ڈٹ گئے تھے، جبکہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لئے دلیل کے ساتھ حقیقت واضح کردی تھی، مگر جیسا کہ تاریخ میں باطل عقیدہ پر ڈٹ جانے والوں کی بےشمار مثالیں ملتی ہیں، اسی طرح نجران کے عیسائی بھی اپنے اس بے بنیاد اور کھوکھلے عقیدہ سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے تھے تو اللہ تعالی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آیت نازل کرتے ہوئے، پنجتن آل عبا کو اکٹھے کرتے ہوئے، ان کی فضیلت ظاہر کرتے ہوئے، ان کی بددعا اور لعنت کرنے سے عیسائیوں کو لاجواب اور تسلیم کردیا، ارشاد الہی ہوا: "فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّـهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ"[4]،" پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں"۔
مباہلہ اصل میں "بہل" سے لیا گیا ہے جس کے معنی آزاد کرنا اور کسی چیز سے رکاوٹ ہٹانا ہیں اور دعا میں "ابتہال"، تضرع کرنے، گڑگڑانے اور اپنے کام کو اللہ کے سپرد کرنے کے معنی میں ہے۔ اور یہ جو مباہلہ کو "ہلاکت، لعنت اور اللہ سے دوری" کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا نتیجہ، انسان کو اپنے حال پر چھوڑ دینا، ہلاکت، لعنت اور اللہ کی بارگاہ سے دوری ہے۔
مذکورہ آیت میں مباہلہ دو آدمیوں کا ایک دوسرے کے لئے بددعا کرنے کے معنی میں ہے، اس طرح سے کہ جب عقلی دلیلوں کا فائدہ نہ ہو تو جو افراد آپس میں کسی اہم دینی مسئلہ کے بارے میں گفتگو کررہے ہیں، ایک جگہ پر اکٹھا ہوتے ہیں اور اللہ کی بارگاہ میں تضرع کرتے (گڑگڑاتے) ہیں اور اللہ سے طلب کرتے ہیں کہ جھوٹے کو ذلیل کردے اور سزا دے۔[5]
اگرچہ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اس داستان میں خود اکیلے بھی مباہلہ کرتے ہوئے لعنت کرسکتے تھے، لیکن اللہ تعالی اور پیغمبر اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حضرت امیرالمومنین، جناب فاطمہ، امام حسن اور امام حسین (علیہم السلام) کو لانے کے ذریعے رہتی دنیا تک یہ بات سمجھا دی کہ یہ افراد، حق کی طرف رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی دعوت میں آنحضرتؐ کے شریک ہیں اور آنحضرتؐ کے راستہ کو جاری رکھنے والے ہیں۔
آیت مباہلہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کو اپنے دعوی کی صداقت اور سچائی پر ایمان ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے اولاد کی محبت کو جو انسان کے دل میں رکھا ہے، ان کی جان کو محفوظ رکھنے کے لئے انسان حتی اپنی جان کو بھی خطرہ میں ڈال دیتا ہے اور ان کی حمایت، غیرت اور دفاع کی خاطر خطرناک کام بھی کرنے پر تیار ہوجاتا ہے، لیکن ایسا نہیں کہ اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لئے ان کو خطرے میں ڈال دے، اسی لیے آیت کریمہ میں بیٹوں کو پہلے، عورتوں کو دوسرے اور اپنے آپ کو اور اپنے نفس کو تیسرے مرحلہ میں ذکر کیا ہے، کیونکہ انسان کی اپنے فرزندوں سے محبت زیادہ گہری اور زیادہ طویل ہوتی ہے۔
دوسرے پہلو سے اس آیت میں افراد کو تفصیلی طور پر ایک ایک کرکے شمار کیا ہے، یہ بات دلیل ہے کہ پیشکش کرنے والا شخص اپنے دعوی پر بالکل مطمئن ہے۔ لہذا مباہلہ کے واقعہ میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی حقانیت کو عیسائیت اور عیسائیوں کے مقابلہ میں ثابت کرنا ہے۔
نیز اس آیت میں اہل بیت (علیہم السلام) کا اللہ تعالی نے تعارف کروادیا ہے، اس تعارف اور فضائل کی وضاحت دوسرے مضمون میں تفصیلی طور پر بیان کی جائے گی۔ اس مضمون میں کیونکہ اس آیت پر طائرانہ نظر مقصود ہے تو آیت مباہلہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اہل بیت (علیہم السلام) کے تعارف کروانے کے علاوہ کچھ نکات اخذ ہوتے ہیں:
۱۔ غیب سے مدد حاصل کرنا، معمول اور ظاہری توانائیوں کے استعمال کے بعد۔
۲۔ اگر انسان کو اپنے مقصد پر ایمان ہو تو حتی خود اور اپنے رشتہ داروں کو بھی خطرہ کی زد میں لے آتا ہے۔
۳۔ کبھی افراد کی کثرت کی اہمیت ہوتی ہے اور بعض اوقات افراد کی کثرت مطلوب نہیں ہوتی بلکہ کم تعداد افراد کی شان و عظمت اور ہدف کی اہمیت مقصود ہوتی ہے۔
۴۔ دعا کی محفلوں میں بچوں کو بھی لانا چاہیے۔
۵۔ دلیل کا جواب دلیل سے دینا چاہیے، غیر مناسب مجادلہ اور ضدبازی کو دبا دینا چاہیے۔
۶۔ اگر حق کا پیروکار انسان، اپنی حقانیت پر مضبوطی اختیار کرے تو باطل پر چلنے والے شخص کو شکست ہوسکتی ہے۔
۷۔ دین انہی چند معصوم ہستیوں کی خاطر قائم اور زندہ ہے، ورنہ خود پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لعنت کرسکتے تھے۔
نتیجہ: آیت مباہلہ میں شرک کا خاتمہ کرنے اور توحید کو ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ نبوت اور امامت بھی ثابت ہورہی ہے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم پروردگار کے مطابق مباہلہ کی دعوت دے کر چند باتیں ثابت کردیں، جن میں سے چند یہ ہیں کہ عیسائیوں کا یہ نظریہ کہ حضرت عیسی (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں، باطل ہے، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ہیں، اور ان عظیم الشان اور عالی مقام ہستیاں جو آنحضرت کے ساتھ تشریف لائی ہیں، ان کی لعنت عیسائیوں کو برباد کردے گی۔ اب امت مسلمہ سے سوال یہ ہے کہ جن ہستیوں کی بددعا اور لعنت عیسائیوں کو جلاسکتی ہے، کیا انہی میں سے ایک ہستی جو رسول (ص) کی بیٹی ہیں، ان کی بددعا رسول (ص) کے دشمنوں اور خلافت کے غاصبوں کو جلا نہ دیتی اگر امیرالمومنین (علیہ السلام) منع نہ کرتے۔ (واضح رہے بنت رسول (ص) کی بددعا کرنے کا ارادہ بھی بحکم الہی ہے اور وصی رسول (ص) کی ممانعت بھی بحکم الہی ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] تفسیر نور، ج2، ص 76۔
[2] سورہ آل عمران، آیت 59۔
[3] شواہد التنزیل، حاکم حسکانی، ج1، ص155 سے بھی اقتباس۔
[4] سورہ آل عمران، آیہ 61۔
[5] پیام قرآن، آیت اللہ مکارم شیرازی، ج9، ص 242۔
Add new comment