حضرت علی علیہ السلام کا نماز کی حالت میں زکات دینا

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے نماز کی حالت میں زکات دی ،اور پھر قرآن میں سورہ مائدہ کی آیت نمبر 55 بھی اس چیز کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔

حضرت علی علیہ السلام کا نماز کی حالت میں زکات دینا

     ہمارا اس موضوع پر قلم اٹھانے کا مقصد یہ ہے کہ بعض لوگوں نے یہ سوال کیا ہے کہ آپ جو کہتے ہیں کہ مولائے کائنات نے نماز کی حالت میں زکات دی تو کیا مولائے کائنات پر زکات واجب تھی؟
نہیں ایسی بات نہیں ہے، سب سے پہلے تو واضح ہونا چاہیے کہ مولائے کائنات حضرت علی (علیہ السلام) عام فقیروں کی طرح کبھی بھی فقیر اور تنگ دست نہیں تھے، وہ ہمیشہ محنت کر کے کمایا کرتے تھے اور جب بھی کچھ کماتے تھے تو اسے رات کی تاریکی میں مستحق لوگوں میں تقسیم کر دیا کرتے تھے اور دوسری بات یہ ہے کہ زکات کی دو قسمیں ہیں ایک وہ زکات کہ جسے خداوند متعال نے واجب قرار دیا ہے اور ایک مستحب زکات ہے اور مستحب زکات وہ ہے کہ جسے سب لوگ ادا کر سکتے ہیں۔

     حضرت علی (علیہ السلام) کی زندگی ہو یا سیرت، اسے شیعہ سنی نے لکھا ہے اور سب نے واضح طور پر لکھا ہے کہ مولائے کائنات ایک جدوجھد اور محنت کرنے والے انسان تھے لیکن پھر اتنی سادہ زندگی کیسے، تو اس کا جواب یہی ہےکہ جو بھی کماتے تھے وہ راہ خدا میں تقسیم کر دیتے تھے، اسی لیے بعض نے یہ لکھا ہے کہ کبھی روٹیاں کبھی کھجوریں اور کبھی آٹا لے جاکر غریبوں میں تقسیم کرتے تھے اور یہ ایسی چیزیں ہیں کہ جو تمام اہل اسلام کے سامنے واضح ہیں مجھے ضرورت نہیں ہے کہ میں ایک ایک  واقعہ کو یہاں پر ذکر کروں فقط اشارہ ہی کافی ہے ہاں جو چیز مشھور ہے وہ یہ کہ امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) نے مال و دولت دے کر غلاموں کو آزاد کیا، اب کتنے غلاموں کو آزاد کیا وہ ہم نہیں جانتے لیکن ایک روایت کے مطابق انہوں نے ایک ہزار غلاموں کو آزاد کیا ہے اور جب بھی جنگ سے واپس آتے تو جتنا بھی مال غنیمت ملتا وہ تقسیم کر دیتے تھے۔ [۱]

     ہاں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ کبھی بھی کسی فقیر کو خالی نہیں پلٹایا کرتے تھے تو یہی وجہ ہےکہ جب نماز کی حالت میں تھے تو جب فقیر نے سوال کیا تو رکوع کی حالت میں بھی فقیر کی مدد سے غافل نہ تھے۔

     اب کوئی یہ کہے کہ مستحب زکات کا وجود ہے بھی سہی یا نہیں تو قرٓن کی بہت سی  آیات ایسی ہیں جہاں مستحب زکات کی طرف اشارہ ہے۔[۲] اور یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ زکات در حقیقت ہجرت کے بعد واجب ہوئی تھی۔[۳] 

علامہ طباطبائی المیزان میں لکھتے ہیں کہ:
زکات سے کیا مراد ہے یعنی جب بھی کوئی لفظ  زکات استعمال کرتا ہے تو اس کی مراد کیا ہوتی ہے، اصل  میں لفظ زکات سے ہمارا ذہن فوراً واجب زکات کی طرف جاتا ہے اور صدقے کی طرف جاتا ہی نہیں بلکہ دونوں مراد لیے جا سکتے ہیں اور ہاں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانے میں دونوں مراد لیے جاتے تھے کیونکہ زکات کا حقیقی معنی زکات واجب ہے اور لغوی معنی صدقہ ہے، اس لیے اس دور میں دونوں کی طرف ذہن جاتا تھا، ہم لوگوں نے کیونکہ دونوں کو الگ الگ نام دے رکھا ہے اس لیے ہمارا ذہن اس طرف نہیں جاتا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زکات سے مراد واجب زکات بھی ہے اور صدقہ بھی ہے۔[۴]

نتیجہ
اسی لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سوره مائده کی آیت نمبر ۵۵ کہ جو اکثر مفسرین  نے یہ لکھا ہے کہ یہ مولائے کائنات کی اس زکات کے بارے میں ہے جو آپ نے رکوع کی حالت میں دی اور فقیر کو آپ کا یہ انگوٹھی دینا مستحب زکات ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے جات :
[۱]  تفسیر نمونہ ، ج ۴ ص ۴۲۹۔
[۲]  آیت ۳ سوره نمل اور آیت ۳۹ سوره روم ، اور ۴ سوره لقمان ، اور ۷ سوره فصلت وغیره
[۳]  تفسیر نمونہ ، ج ۴ ص ۴۳۰۔
[۴]  ترجمہ تفسیر المیزان۔ ج ۶ ص ۱۱۔
 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
4 + 12 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 49