خلاصہ: قرآن کریم کی کئی آیات پنجتن آل عبا کی عظمتوں کی نشاندہی کررہی ہیں، ان میں سے دو آیتیں، آیت مباہلہ اور آیت تطہیر ہیں۔ نجران کے نصرانیوں کےلئے حقیقت واضح ہوجانے کے باوجود وہ حق کے سامنے تسلیم نہ ہوئے تو آیت مباہلہ نازل ہوئی، جس کے دوسرے دن مباہلہ کے لئے پنجتن آل عبا روانہ ہوئے اور بعض نقل کے مطابق آیت تطہیر اسی دن نازل ہوئی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پنجتن آل عبا اور اصحاب کساء کے فضائل مختلف مقامات پر منظرعام پر آتے رہے اور دنیاوالوں کے لئے ان کی عظمت پر ثبوت پیش ہوتے رہے۔ فضائل اہل بیت (علیہم السلام) کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں سے کچھ فضائل آیت مباہلہ اور آیت تطہیر میں رونما ہوئے۔ بعض نقل کے مطابق یہ دونوں آیات مباہلہ کے دن میں ہی نازل ہوئی ہیں۔
آیت مباہلہ کے مصادیق
شیخ مفید نے بیان کیا ہے کہ مباہلہ کا واقعہ فتح مکہ (آٹھ ہجری) کے بعد اور حجۃ الوداع (دسویں ہجری) سے پہلے رونما ہوا ہے۔[1] یہ واقعہ ۲۴ ذی الحجہ کو وقوع پذیر ہوا اور اس سلسلہ میں سورہ آل عمران کی آیت ۶۱ نازل ہوئی۔
نجران کا وفد جو عیسائیوں کے دس سے زائد بڑے افراد پر مشتمل تھا، تین افراد عاقب، سید اور ابوحارثہ کی زیرسرپرستی مدینہ میں داخل ہوا۔ عیسائیوں کے ان نمائندوں نے مدینہ کی مسجد میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گفتگو کی۔ اس گفتگو میں جب نجران کے نصارا اپنے باطل عقیدہ پر ڈٹ گئے تو اللہ تعالی نے آیت نازل فرمائی کہ "فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّـهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ"، "پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں"۔ لہذا طے پایا کہ سب، شہر مدینہ کے باہر، بیابان میں مباہلہ کے لئے تیار ہوجائیں۔
مباہلہ کے دن صبح کے وقت، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے گھر تشریف لائے، امام حسن (علیہ السلام) کا ہاتھ پکڑے، اور امام حسین (علیہ السلام) کو آغوش میں لیے ہوئے، حضرت علی (علیہ السلام) اور حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے ساتھ مباہلہ کے لئے مدینہ سے باہر آئے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مباہلہ کے لئے دو زانو بیٹھے، سید و عاقب نے اپنے بیٹوں کو مباہلہ کے لئے اٹھایا۔ ابوحارثہ نے کہا: خدا کی قسم! (آنحضرت) اس طرح سے بیٹھے ہیں جیسے انبیاء مباہلہ کے لئے بیٹھتے تھے اور پھر واپس چلا گیا۔ سید نے کہا: کہاں جارہے ہو؟ اس نے کہا: اگر محمد حق پر نہ ہوتے تو مباہلہ کے لئے اس طرح سے جرات نہ کرتے اور اگر ہم سے مباہلہ کریں، اس سے پہلے کہ ہم پر ایک سال گزرے، ایک نجرانی زمین پر نہیں رہے گا۔
دوسری نقل کے مطابق اس نے کہا: میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ اللہ سے دعا مانگیں کہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے اکھاڑ دے تو یقیناً پہاڑ اکھڑ جائے گا، لہذا مباہلہ مت کرو کہ ہلاک ہوجاوگے اور ایک نصرانی بھی زمین پر باقی نہیں رہے گا۔
اہلسنت کے مفسرین جیسے زمخشری[2]، فخررازی[3]، بیضاوی[4] وغیرہ نے کہا ہے کہ آیت میں «ابناءنا» (ہمارے بیٹوں) سے مراد حسن و حسین(ع)، اور «نساءنا» (ہماری عورتوں) سے مراد فاطمه زهرا (س) اور «انفسنا» (ہماری جانوں) سے مراد حضرت علی(ع) ہیں۔
نجران کے نصرانیوں نے جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آنحضرت کی اہل بیت (علیہم السلام) کی صداقت اور اخلاص کو دیکھا تو اللہ کے عذاب سے ڈر گئے اور انہوں نے مباہلہ نہ کیا[5]، اور عاجزانہ طور پر آنحضرت سے عرض کی: اے ابوالقاسم! ہم مباہلہ نہیں کرتے، آپ اپنے دین پر باقی رہیں اور ہمیں بھی اپنے دین پر باقی رہنے دیجیے۔ آپ نے فرمایا: نہیں، اگر مباہلہ نہیں کرنا چاہتے ہو تو مسلمان ہوجاو۔ پادری نے کہا: نہیں! ہم مسلمان نہیں ہوتے اور چونکہ ہمارے پاس جنگ کی طاقت نہیں ہے تو دیگر اہل کتاب کی طرح جزیہ دیں گے۔ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی بات قبول کرلی اور مصالحہ کرلیا۔[6]
آیت مباہلہ اور واقعہ مباہلہ سے اہل بیت عصمت و طہارت (علیہم السلام) کی عظمت واضح ہوتی ہے اور اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدعی، سچے اور مستجاب الدعوۃ ہیں… انسان اپنے گھرانے سے محبت کرتا ہے اور بعض اوقات اپنے آپ کو ان پر قربان کردیتا ہے، لیکن چونکہ اللہ تعالی کا دین اپنی جان سے زیادہ پیارا ہوتا ہے اور انسان کی قدر، اللہ کے دین کی حمایت کرنے پر موقوف ہے، جب دین کو خطرہ لاحق ہوا تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے آپ کو اور اپنے اہل بیت (علیہم السلام) کو دین پر قربان کرتے ہیں۔[7]
مباہلہ اور آیت تطہیر عائشہ کی زبانی
علامہ اہلسنت زمخشری نے تفسیر کشاف میں آیت مباہلہ کے ذیل میں عائشہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) مباہلہ کے دن باہر تشریف لائے اور آپ نے سیاہ بالوں والی عبا زیب تن کی ہوئی تھی، جب امام حسن پہنچے تو آپ نے ان کو اپنی عبا میں داخل کیا، پھر امام حسین پہنچے، آپ نے ان کو بھی اپنی عبا کے نیچے داخل کیا، اور اس کے بعد فاطمہ اور پھر علی، پھر فرمایا: »إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً «،[8] " بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے "۔
علامہ زمخشری کا کہنا ہے کہ "یہ بات، اصحاب کساء کی فضیلت پر دلیل ہے کہ اس سے زیادہ طاقتور دلیل نہیں پائی جاتی"۔
علامہ حلی آیت تطہیر کے نزول کے بارے میں فرماتے ہیں: "آیت تطہیر کا پنجتن اصحاب کساء کے بارے میں نازل ہونا متواترات میں سے ہے اور اس بارے میں کوئی شک نہیں کرتا مگر یہ کہ دشمن اور مطلب پرست شخص ہو"[9]۔
آیت تطہیر کے مصادیق شیعہ اور اہلسنت کی نظر میں
آیت تطہیر کے مصادیق کے بارے میں شیعہ اور اہلسنت کے درمیان اختلاف ہے، شیعہ نے صرف پنجتن آل عبا کو اہل بیت کا مصداق سمجھا ہے اور بعض اہلسنت نے ان کے علاوہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کو سمجھا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اہل بیت سے مراد صرف پنجتن آل عبا ہوسکتے ہیں کیونکہ اگر ازواج مراد ہوتیں تو "عَنکُم"، کی جگہ پر "عَنکُنَّ" اور "یطَهِّرَکُم" کی جگہ پر "یطَهِّرَکُنَّ" آنا چاہیے تھا، مگر مذکر کی ضمیروں سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس سے مراد ازواج نہیں ہیں، بلکہ آل عبا مراد ہیں۔ یہ دلیل تو قرآن کی آیت کے واضح الفاظ سے پیش کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اہلسنت کے امام احمد ابن حنبل نے کئی بار روایت نقل کی ہے کہ ان سب روایتوں کا خلاصہ یہی ہے کہ پیغمبر (ص) نے آیت تطہیر کا مصداق بیان کیا ہے: فاطمہ، ان کے شوہر اور ان کے دو بیٹے۔[10]
امام احمد ابن حنبل نے ہی کتاب فضائل الصحابہ میں نقل کیا ہے کہ پیغمبر (ص) چھ مہینوں تک نماز فجر کے لئے جاتے ہوئے، جب فاطمہ کے گھر کے دروازے پر پہنچتے تو آواز دیتے: اے اہل بیت! نماز! نماز! اے اہل بیت! "اللہ چاہتا ہے کہ برائی کو تم (پیغمبر) کے گھرانہ سے دور کرے اور تمہیں پاک و پاکیزہ کردے"۔[11]
نتیجہ: آیت مباہلہ اور آیت تطہیر دونوں آیتوں کے مصداق پنجتن آل عبا ہیں، جو پنجتن آیت تطہیر کے مخاطب ہیں انہیں کو اللہ کے حکم سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نصرانیوں سے مباہلہ کے لئے اپنے ساتھ لے گئے، جس سے اہل بیت (علیہم السلام) کی عظمت واضح ہوتی ہے۔ جو آیت تطہیر کے مخاطب ہیں انہیں کی بددعا دشمن سے مقابلہ کرتے ہوئے اللہ کی بارگاہ میں مستجاب ہونا تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] الارشاد، ج1، ص166-171۔
[2] تفسیر الکشاف، سورہ آل عمران، آیت 61 کے ذیل میں۔
[3] التفسیر الکبیر، سورہ آل عمران، آیت 61 کے ذیل میں۔
[4] تفسیر انوار التنزیل و اسرار التأویل، سورہ آل عمران، آیت 61 کے ذیل میں۔
[5] فارسی میں ترجمہ قرآن کریم اور وضاحت، بهاءالدین خرمشاهی، آیت مباہلہ کے ذیل میں، ص57۔
[6] المیزان، ج3، ص250۔
[7] آیت اللہ جوادی آملی کے بیانات سے اقتباس، سیره پیامبر اکرم صلی الله علیه و آله در قرآن، ج۲، صفحات169-184۔
[8] سورہ احزاب، آیت 33۔
[9] نہج الحق و کشف الصدق، ص230۔
[10] مسند احمد، ج 1، ص331؛ مسند احمد، ج 4، ص107؛ مسند احمد، ج 6، ص292۔
[11] فضائل الصحابة، احمد ابن حنبل، ج 2، تحقیق: وصی الله بن محمدعباس، مکة: جامعة ام القری، 1403ق/1983م، ص761۔
Add new comment