خلاصہ: قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق بعض انبیاء بعض دیگر انبیاء سے افضل و برتر ہیں، اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب انبیاء سے افضل ہیں۔ اس بات کو قرآن و احادیث کی روشنی میں بیان کیا جارہا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بعض انبیاء کی بعض دیگر پر فضیلت قرآن و حدیث کی روشنی میں: قرآن کریم کی نظر میں سب انبیاء (علیہم السلام) ہم رتبہ اور برابر فضائل کے حامل نہیں ہیں، بلکہ اللہ تعالی نے بعض انبیاء کو بعض دیگر پر فضیلت دی ہے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد الہی ہے:"تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللَّہ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ[1]"، "یہ سب رسول (علیہم السّلام) وہ ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے. ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے خدا نے کلام کیا ہے اور بعض کے درجات بلند کئے ہیں"۔ نیز سورہ اسراء میں اللہ تعالی ارشاد فرما رہا ہے: "وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِمَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلَىٰ بَعْضٍ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا"[2]، "اور آپ کا پروردگار زمین و آسمان کی ہر شی سے باخبر ہے اور ہم نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت دی ہے اور داؤد کو زبور عطا کی ہے"۔ پہلی آیت میں رسولوں کی بعض دیگر رسولوں پر فضیلت بتائی گئی ہے اور دوسری آیت میں نبیوں کی بعض دیگر نبیوں پر فضیلت کا ذکر ہوا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ انبیاء کے بھی درجات ہیں اور رسولوں کے بھی درجات ہیں۔ سورہ بقرہ کی آیت ۱۲۴ کی بنیاد پر جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے امتحان اور امامت کے سلسلہ میں ہے، بعض انبیاء امام بھی تھے اور سورہ انبیاء کی آیات 69 سے 73 تک حضرات ابراہیم، اسحاق، یعقوب اور لوط کو امام کہا گیا ہے، ارشاد الہی ہے: "وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً یهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَینَا إِلَیهِمْ فِعْلَ الْخَیرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِیتَاءَ الزَّكَاةِ وَ كَانُوا لَنَا عَابِدِینَ "[3]، اور ہم نے ان سب کو پیشوا قرار دیا جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ان کی طرف کارخیر کرنے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی وحی کی اور یہ سب کے سب ہمارے عبادت گزار بندے تھے"۔
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "سادَةُ النَّبيّينَ و المُرسَلينَ خَمسَةٌ، و هُم اُولو العَزمِ مِن الرُّسُلِ و علَيهِم دارَتِ الرَّحى: نُوحٌ، و إبراهيمُ، و موسى، و عيسى، و محمّدٌ صلَّى اللّه ُ علَيهِ و آلهِ و على جَميعِ الأنبياءِ[4]"، "انبیاء اور رسولوں کے سردار پانچ ہیں اور وہ اولوالعزم رسول ہیں اور (نبوت کی) چکّی ان کے اردگرد گھومتی ہے: نوح، ابراہیم، موسی، عیسی اور محمد، اللہ کا درود ہو آنحضرت پر اور آنحضرت کی آل پر اور سب انبیاء پر"۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سب انبیاء و مرسلین پر افضلیت قرآن و حدیث کی روشنی میں: اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے کئی دلائل میں سے صرف تین دلائل پیش کیے دیتے ہیں:
۱۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے مسلمان: اللہ تعالی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا ہے کہ کہہ دیجیے: "وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ[5]"، "اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں"۔ اس آیت کریمہ میں اول المسلمین سے مراد رتبہ کے لحاظ سے اولیت ہے، کیونکہ حضرت آدم ابوالبشر، نوح شیخ الانبیاء اور ابراہیم خلیل الرحمن کے بارے میں اللہ تعالی نے اول المسلمین کے الفاظ ذکر نہیں کیے، جبکہ یہ حضرات زمانے کے لحاظ سے پہلے گزر چکے تھے، یہاں سے یہ نتیجہ ملتا ہے کہ اس آیت میں اولیت، زمانی، تاریخی اور مادی نہیں، اس لیے کہ اگر زمانی اولیت مقصود ہوتی تو یقیناً ہر پیغمبر اپنی قوم کی بہ نسبت اول المسلمین تو ہے، لیکن اول المسلمین کے الفاظ صرف آخری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے استمال کیے ہیں، لہذا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اول المسلمین ہونا، وجودی رتبہ کے لحاظ سے ہے، یعنی کوئی شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وجودی رتبہ کے برابر اور ہم پلہ نہیں ہے، جیسا کہ قیامت کے دن پہلا شخص جو محشور ہوگا، وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہوں گے۔
۲۔ حضرت عیسی (علیہ السلام) کی بشارت: "وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ[6]"، "اور اپنے بعد کے لئے ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں جس کا نام احمد ہے"۔ بشارت وہاں ہوتی ہے جہاں بعد والا پیغمبر، اپنی امت کے لئے نئی بات لائے، اگر پیغمبر خاتم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گذشتہ انبیاء کے برابر یا حضرت عیسی (علیہ السلام) کی رسالت کے برابر بات کی ہو تو پہلے تو یہ ہے کہ پھر نئے پیغمبر کے آنے کی ضرورت ہی نہیں تھی اور دوسرا یہ کہ بشارت کی بھی ضرورت نہیں تھی، مگر حضرت عیسی (علیہ السلام) کی یہ بات نشاندہی کرتی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، حضرت عیسی (علیہ السلام) سے افضل ہیں اور قرآن کریم انجیل سے افضل ہے اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی گئی تعلیمات، حضرت عیسی کی لائی گئی تعلیمات سے زیادہ ہیں، کیونکہ صرف اِسی صورت میں ہی بشارت کے معنی وقوع پذیر ہوسکتے ہیں۔
۳۔ پیغمبر اور پیغمبر کی کتاب کا باہمی تعلق: ہر پیغمبر کا علمی کمال اور معنوی مقام، اس کی آسمانی کتاب میں ظاہر ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر نبی کی آسمانی کتاب اُسی نبی کی شخصیت کی تجلی اور ظہور ہے، لہذا حضرت موسی (علیہ السلام) کا مقام، توریت کی حد تک ہے اور حضرت عیسی (علیہ السلام) کا مقام، انجیل کی حد تک ہے اور دیگر انبیاء کا مقام ان کی آسمانی کتب اور صحیفوں کی حد تک ہے اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام قرآن کی حد تک ہے اور قرآن بھی توریت، انجیل اور دیگر صحیفوں کا محافظ و نگہبان (مہیمن) ہے، بنابریں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی حضرت موسی کلیم اللہ اور عیسی روح اللہ اور دیگر انبیاء سے افضل ہیں۔
شیخ صدوق ؒ نے نقل کیا ہے کہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: "ما خلق اللّه (عزّ و جلّ) خلقا أفضل منّي و لا أكرم عليه منّي "، "اللہ (عزوجل) نے کوئی مخلوق مجھ سے افضل اور مجھ سے زیادہ کریم خلق نہیں کی"، حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: "يا رسول اللّه فأنت أفضل أو جبرئيل عليه السّلام"، "یا رسول اللہ! تو آپ افضل ہیں یا جبرئیل علیہ السلام؟" تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: "يا عليّ انّ اللّه تعالى فضّل أنبيائہ المرسلين على ملائكته المقرّبين و فضّلني على جميع النبيّين و المرسلين و الفضل بعدي لك يا عليّ و للأئمّة من ولدك و انّ الملائكة لخدّامنا و خدّام محبّينا"[7]، "یا علی! بیشک اللہ تعالی نے اپنے مرسل نبیوں کو اپنے مقرب ملائکہ پر فضیلت دی ہے اور مجھے سب نبیوں اور رسولوں پر فضیلت دی ہے اور فضیلت میرے بعد آپ کے لئے ہے یا علی، اور آپ کی اولاد سے ائمہ کے لئے اور یقیناً ملائکہ ضرور ہمارے خادم ہیں اور ہمارے محبوں کے خادم ہیں"۔
نتیجہ: سب انبیاء کا مقام برابر نہیں ہے اور ان میں سے بعض، دیگر بعض سے افضل ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام بھی تمام انبیاء سے افضل اور برتر ہے۔ جس کا ثبوت واضح قرآنی آیات اور اہل بیت (علیہم السلام) کی احادیث ہیں۔ بنابریں اللہ تعالی نے ہمیں اتنی عظیم رحمت سے نوازا ہے کہ ہم اس رسول کی امت ہیں جو دیگر سب رسولوں سے افضل ہے، جس کی کتاب، دیگر سب آسمانی کتب سے افضل ہے، لہذا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل بیت (علیم السلام) کے فرامین کی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کتاب (قرآن) کے احکام اور تعلیمات کی ہمیں پوری کوشش کے ساتھ قدردانی کرنی چاہیے اور فکر و عمل کے میدان میں ان دو منارہ ہدایت اور چراغ سعادت کے عین مطابق چلنا چاہیے تاکہ زندگی کے کسی موڑ پر لغزش نہ آنے پائے اور ان کی نافرمانی نہ ہونے پائے کیونکہ ان کی نافرمانی، اللہ ہی کی نافرمانی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] سورہ بقرہ، آیت 253۔
[2] سورہ اسرا٫، آیت 55۔
[3] سورہ انبیا٫، آیت 73۔
[4] الکافی، ج۱، باب طبقات الانبیا٫ والرسل، حدیث 3۔
[5] سورہ انعام، آیت 163۔
[6] سورہ صف، آیت 6۔
[7] سفینة البحار، شیخ عباس قمی، ج7، ص92۔
Add new comment