خلاصہ: انسان کے لئے بصیرت پیدا کرنا بہت ضروری ہے، بصیرت کے تین اہم عنصر ہیں جن میں سے ایک عنصر، خدا کی طرف سے عطا ہوتا ہے اور دوسرے دو عنصر کسبی ہوتے ہیں جو دینی معلومات میں اضافہ اور ایمان اور تقوی کا اختیار کرنا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خداوند عالم قرآن مجید میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بارے میں ارشاد فرمارہا ہے: « قُلْ ہٰذِہٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللہِؔ عَلٰي بَصِيْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ وَسُبْحٰنَ اللہِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ[سورۂ یوسف، آیت:۱۰۸] کہہ دیجیے یہی میرا راستہ ہے، میں اور میرے پیروکار پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں اور پاکیزہ ہے اللہ اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں»،
حضرت علی(علیہ السلام) بصیرت کے بارے میں فرماتے ہیں: «َإِنَ مَعِي لَبَصِيرَتِي مَا لَبَّسْتُ عَلَى نَفْسِي وَ لَا لُبِّسَ عَلَي[۱] یقینا میں نے اپنے راستہ کو بصیرت کے ساتھ انتخاب کیا ہے، نہ میں نے اپنے آپ کو دھوکہ دیا ہے نہ کسی اور نے مجھے دھوکہ دیا ہے»، امام علی(علیہ السلام) کی اس فرمائش کے بعد ہمارے لئے بصیرت کا معنی واضح اور روشن ہوگیا ہے کہ جو بصیرت رکھتا ہے نہ اس کا نفس اس کو دھوکہ دے سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اور اسے دھوکہ دے سکتا ہے۔
لیکن یہاں پر ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بصیرت کیسے حاصل ہوتی ہے؟ اس کے جواب میں علماء، حدیثوں کی مدد سے فرماتے ہیں کہ بصیرت کے لئے کم سے کم تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے؛
ایک یہ کہ بصیرت کے لئے ایک خاص ہوش اور فھم کا ہونا ضروری ہے جو خدا کی جانب سے عطا ہوتا ہے(البتہ اس کے اندر ضعف اور شدت پائی جاتی ہے) اور یہ بصیرت ایمان اور نیک اعمال کی بناء پر انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے جیسا کے معصوم(علیہ السلام) ارشاد فرمارہے ہیں: «اتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ وَ قَالَ الْمُؤْمِنُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللَّه[۲] مؤمن کے ہوش اور فراست سے بچو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے».
اور دوسرے دو عنصر جو ہیں وہ کسبی ہیں، اگر انسان کے اندر وہ ہوش اور فھم موجود ہو جو اسے خدا نے عطا فرمایا ہے(جو عام طور پر سب کے اندر پایا جاتا ہے کسی کے اندار کم اور کسی اندر زیادہ) تو بصیرت کو حاصل کرنے کے لئے اسے چاہئے کہ وہ دوسرے دو عنصر کو بھی حاصل کرے، جن میں سے ایک دینی معلومات میں اضافہ کرنا ہے تاکہ اسے کوئی دین کے معاملہ میں دھوکہ نہ دے سکے، بصیرت کا لازمہ یہ ہے کہ اسے کوئی دھوکہ نہ دے سکے جیسا کہ اوپر حضرت علی(علیہ السلام) کی حدیث میں بیان کیا گیا ہے، انسان کو دین کے رنگ میں دھوکہ دیا جاتا ہے، کہا جاتا ہے تمھارا دینی وظیفہ یہ ہے قرآن کی آیت یہ کہہ رہی ہے جیسا کہ جن لوگوں نے حضرت علی(علیہ السلام) پر تلوار اٹھائی تھی وہ قرآن سے دلیل لیکر آئے تھے اور کہہ رہے تھے: «اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ[سورۂ انعام، آیت:۵۷] فیصلہ تو صرف اللہ ہی کرتا ہے»، ایک طریقہ یہ ہے کہ انسان کو قرآن اور احادیث کے ذریعہ دھوکہ دیا جاتا ہے۔ جس انسان کا سروکار قرآن حدیث سے کم ہوتا ہے وہ ایسے دھوکے میں آجاتا ہے، اسی لئے انسان کے لئے ضرورری ہے کہ وہ اپنے دینی معلومات میں اضافہ کرے۔
اور بصیرت کا تیسرا جو عنصر ہے وہ ایمان اور تقوی میں اضافہ کرنا ہے کیونکہ جو شخص دنیا کی محبت میں گرفتار ہے، وہ تمام چیزوں کو کسی اور نگاہ سے دیکھتا ہے، جو دل میں آتا ہے اس کی تفسیر کرتا ہے اور یہ انسان کی بصیرت کے لئے بہت بڑی رکاوٹ ہے یہ وہ جال ہے جو شیطان نے ہم سب کے لئے بچھا رکھا ہے۔
نتیجہ:
بصیرت ایک مثلث ہے جس کا ایک حصہ خدا کی طرف سے عطا ہوتا ہے لیکن دوسرے دو حصے کسبی ہیں اس میں سے ایک دینی معلومات میں اضافہ اور دوسرا اپنے آپ کو ایمان و تقوی سے سنوارنا ہے، اگر یہ تینوں چیزیں کسی کے اندر پائی جاتی ہیں تو انسان کے اندر بصیرت خود با خود پیدا ہوجاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] محمد بن حسين رضى، نهج البلاغة (للصبحي صالح)، هجرت - قم، پہلی چاپ، ۱۴۱۴ ق.
[۲] محمد باقر مجلسى، بحار الانوار، دار إحياء التراث العربي - بيروت، دوسری چاپ، ۱۴۰۲ ق.
Add new comment