خلاصہ: حدیث غدیر میں بعض علماء نے مولی کے معنی دوست اور مددگار لیے ہیں، جبکہ اگر یہ مراد ہوتا تو اتنے اہتمام اور انتظام کی کیا ضرورت تھی؟!
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے جو حدیث غدیر میں ارشاد فرمایا: "من کنت مولاہ فعلی مولاہ"، اگرچہ اہلسنّت کے بہت سارے مصنفین کی کوشش ہے کہ اس حدیث میں "مولی" کو "دوست اور مددگار" کے معنی میں تفسیر کریں، کیونکہ "مولی" کے معانی میں سے ایک مشہور معنی یہی ہے، ہم بھی قبول کرتے ہیں کہ "مولی" کے معانی میں سے ایک معنی دوست اور مددگار ہے، لیکن کئی علامتیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ "مولی" اس حدیث میں "ولی"، "سرپرست" اور "رہبر" کے معنی میں ہے۔ ان میں سے بعض علامتیں یہ ہیں:
۱۔ حضرت علی (علیہ السلام) کی مومنین سے دوستی، کوئی خفیہ اور پیچیدہ بات نہیں تھی جس کے لئے اس قدر تاکید اور بیان کی ضرورت ہو، اور اس بڑے قافلہ کو خشک اور گرم میدان میں ٹھہرانا ضروری ہو اور اس مجمع سے پے در پے اقرار لینے کی ضرورت ہو، جبکہ قرآن کریم نے واضح طور پر فرمادیا ہے: "إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ"، "مومنین آپس میں بالکل بھائی بھائی ہیں"۔
اسلامی اخوت اور مسلمانوں کی ایک دوسرے سے دوستی، اسلامی واضح ترین مسائل میں سے ایک ہے جو اسلام کی ابتدا سے پائی جاتی ہے جس کی نبی اکرم (صلّی اللہ علیہ آلہ وسلّم) کئی بار تبلیغ اور تاکید کرچکے تھے۔ نیز اسلامی اخوت کا مسئلہ ایسا مسئلہ نہیں تھا جو آیت بلّغ میں اتنی تاکید سے بیان ہو اور اسے ظاہر کرنے سے آنحضرتؐ کو خطرہ محسوس ہو۔
۲۔ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے جو فرمایا: "الست اولی بکم من انفسکم"، "کیا میں تمہاری جانوں سے زیادہ تم پر حقِ تصرُّف نہیں رکھتا ہوں"، اس جملہ کا معمولی سی دوستی کو بیان کرنے سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ مراد یہ ہے: "وہی اولویت، حقِ تصرف اور اختیار جومجھے تم پر حاصل ہے اور میں تمہارا پیشوا اور سرپرست ہوں، یہ حضرت علی (علیہ السلام) کے لئے بھی ثابت ہے"۔
۳۔ اس تاریخی واقعہ میں لوگوں کی طرف سے جو حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کو مبارکباد کہی گئی، خصوصاً جو مبارکباد "عمر اور ابوبکر" نے کہی، اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ بات، خلافت کا اعلان ہی تھا جو مبارکبادی کے لائق تھی، کیونکہ دوستی کا اعلان تو سب مسلمانوں کےلئے ثابت ہے، اس بات کے لئے مبارکبادی کی ضرورت نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[ماخوذ از: آیات ولایت، آیت اللہ مکارم شیرازی]
[ترجمہ آیت از: علامہ ذیشان حیدر جوادی اعلی اللہ مقامہ]
Add new comment