امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی ثقافتی جد و جہد: ولایت کا تعارف

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: اس موضوع کے تحت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی ثقافتی جد و جہد کے مختلف پہلووں پر مقالات لکھے جائیں گے، یہ مقالہ آپ کی ولایت کے تعارف کے سلسلے میں ثقافتی جد و جہد کے بارے میں ہے۔ آپ نے مختلف صفات اور شرائط کو بیان کیا ہے جن پر عمل پیرا ہوتے ہوئے انسان ولایت اہل بیت (علیہم السلام) پر ایمان رکھتا ہوا حقیقی شیعہ بن سکتا ہے۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی ثقافتی جد و جہد: ولایت کا تعارف

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی ثقافتی جد و جہد: ولایت کا تعارف

زندگی میں کامیابی کے اہم ترین طریقوں میں سے ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ انسان مقصد تک پہنچنے کے لئے جد و جہد اور محنت کرے، بہترین ثقافت وہی ہے جسے لوگ، اللہ کے منتخب امام کی زیرنگرانی اپنالیں۔ اہل بیت (علیہم السلام) کی سیرت اور زندگی کا مطالعہ کرنے اور آنحضراتؑ کی ثقافتی جد و جہد پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ حضراتؑ، معرفت کے پرجوش چشمے اور حکمت الہی کے خزانے ہیں جنہوں نے چمکنے والے اور ہرگز نہ بجھنے والے چراغ کی طرح کائنات میں ضوفشانی کردی۔ ان مقدس ہستیوں نے اپنے افکار اور ثقافتی کوششوں سے اندھیروں کو زائل کردیا اور ہر دور میں حق کے دشمنوں کی امیدوں کو مایوسی میں بدل دیا۔ ان حضرات میں سے ایک، حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) تھے جو دیگر معصومین (علیہم السلام) کی طرح انسانی کمالات و فضائل کے اعلی رتبہ پر فائز تھے، آپؑ کے والد گرامی کی شہادت کے بعد شیعوں کی امامت و رہبری، اللہ تعالی کے حکم سے آپؑ کو سونپی گئی اور اسلامی معاشرے کی شدید مشکلات کے باوجود ۳۴ سال کی امامت کے دوران آپؑ نے اسلام کی حیات بخش ثقافت کی اشاعت کے لئے بہترین کردار پیش کیا جس کی مثال آپؑ کا ہی مقدس وجود ہے۔
رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کی رحلت کے بعد اسلامی دنیا اور عالَم انسانیت پر جو سب سے بڑا ظلم ہوا، یہ تھا کہ خلافت کو اپنی حقیقی جگہ سےہٹا دیا گیا، رفتہ رفتہ مسئلہ یہاں تک پہنچ گیا کہ اسے معاویہ کے زمانے سے بادشاہت کی صورت میں بدل دیا گیا اور لوگوں کو غلاموں کی طرح خدمت میں لیا گیا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ پیغمبر اسلام (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی امامت و خلافت اور حقیقی و دینی قیادت کی کوئی علامت باقی نہ رہنے پائے۔ جب حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی امامت کی باری آئی تو آپؑ نے مختلف موقعوں پر واضح ارشادات سے، اس مسئلہ کی اہمیت کو بیان فرمایا۔
عیسی ابن سری کا کہنا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے عرض کیا: " أخبرني عن دعائم الاسلام التي لا يسع أحدا من الناس التقصير عن معرفة شئ منها التي من قصر عن معرفة شئ منها فسد عليه دينه ، ولم يقبل منه عمله ولم يضيق مما هو فيه بجهل شئ من الامور جهله قال : شهادة أن لا إله إلا الله والايمان برسوله ، والاقرار بما جاء به من عند الله والزكاة ، والولاية التي أمر الله بها ولاية آل محمد"[1] اسلام کی وہ بنیادیں مجھے بتائیے جن کی پہچان میں کوتاہی کرنے میں کسی شخص کے پاس عذر نہیں ہے، جن میں سے کسی چیز کی پہچان میں کوتاہی کرنے سے اس کا دین فاسد ہوجاتا ہے اور اللہ اس سے اس کا عمل قبول نہیں کرتا اور اگر دوسری باتوں کو نہ جانتا ہو تو نہ جاننے کا کوئی حرج نہ ہو۔ آپؑ نے فرمایا: "لا الہ الا اللہ کی گواہی اور اس کے رسولؐ پر ایمان اور اس چیز کا اقرار جو آنحضرتؐ اللہ کی طرف سے لائے اور زکات کا اور اس ولایت کا جس کا اللہ نے حکم دیا ہے جو ولایت آل محمدؐ ہے"۔
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی حقیقی شیعوں سے ایک حقیقی توقع یہ ہے کہ وہ اپنے ائمہ کی معرفت اور پہچان رکھتے ہوں اور ان کی ولایت کو دل و جان سے قبول کریں نہ کہ صرف ولایت کو قبول کرنے کے دعویدار ہوں۔ آپ نے علامتیں اور نشانیاں واضح کرنے کے ذریعے، ولایت کو حقیقی طور پر قبول کرنے والوں کو غیر حقیقی طور پر قبول کرنے والوں سے الگ کیا ہے، ان نشانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ہم کس گروہ میں شامل ہیں، اگر ایسے گروہ میں ہمارا شمار ہوتا ہے جس کی مذمت ہوئی ہے تو اس گروہ کی صفات کو چھوڑ کر اس گروہ کی صفات کو اپنالیں جس گروہ کی تعریف اور مدح ہوئی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: "الشّیعَةُ ثَلاثَةُ أصْنافٍ؛ صِنْفٌ یَتَزَیَّنونَ بِنا وِصِنْفٌ یَسْتَأکَلُونَ بِنا وَصِنْفٌ مِنّا وَإلَیْنا، یأمَنُون بِأمْنِنا ویَخافُونَ بِخَوْفِنا وَلَیْسوا بِالبُذُرِ المُذَیِّعینَ وَلا بالْجُفاةِ الْمُرائینَ، إنْ غابُوا لم یُفْقَدُوا وَإنْ شَهِدُوا لَمْ یُؤبَه بِهِمْ أولئکَ مَصابیحُ الهُدی "[2]، "شیعہ کے تین گروہ ہیں: ایسا گروہ جو ہمارے ذریعے زینت پاتا ہے (اپنے آپ کو ہم سے منسوب کرتے ہوئے عزت حاصل کرتا ہے)، اور ایسا گروہ جو ہمارے ذریعے روٹی کھاتا ہے (ہمیں اپنی زندگی کی آمدنی کا ذریعہ بناتا ہے) اور ایسا گروہ جو ہم میں سے اور ہماری طرف ہے، ہمارے امن سے سکون پاتے ہیں اور ہمارے خوف سے خائف ہیں، اور (اسرار کے کاشت کیے ہوئے) بیج کو نہیں پھیلاتے اور ظالموں کے سامنے دکھاوا نہیں کرتے، اگر چھپ جائیں تو ان کو تلاش نہیں کیا جاتا اور اگر کھلم کھلا رہیں تو ان کی پرواہ نہیں کی جاتی (یعنی شہرت سے پرہیز کرتے ہیں)، وہ ہدایت کے چراغ ہیں"۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے ولایت کو قبول کرنے اور امام کی پہچان کے سلسلے میں متعدد تاکیدوں کے علاوہ ولایت پذیر شیعوں کی پرورش کی۔ اس بارے میں "عبداللہ بن یعفور" کی داستان ہے جو مخلص اور مجاہد شیعوں میں سے تھے، جو ائمہ اطہار (علیہم السلام) کی ولایت کو قبول کرنے میں تمام شیعوں کے لئے مکمل اور واضح نمونہ ہیں۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ وہ اپنی اتنی علمی عظمت اور معاشرتی حیثیت کے باوجود اپنے امام کے سامنے مکمل طور پر تسلیم رہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر اہل بیت (علیہم السلام) کی ولایت کو قبول کرلیا جائے اور ولایت پر ایمان ہو تو یہی کافی ہے چاہے جتنے گناہوں میں غوطہ زن رہیں، جبکہ ولایت پر ایمان رکھنا ضروری ہے مگر کافی نہیں یعنی ایمان کے ساتھ ساتھ اہل بیت (علیہم السلام) کے فرامین پر عمل کرنا بھی ضروری اور لازمی ہے اور امام کے حکم کو اللہ کا حکم سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے جابر جعفی سے فرمایا: " مَنْ کانَ لِلّهِ مُطیعا فَهُوَ لَنا وَلِیٌّ، وَمَنْ کانَ لِلّهِ عاصیا فَهُوَ لَنا عَدُوٌّ، وَما تُنالُ وِلایتُنا إلاّ بالعَمَلِ وَالْوَرَعِ"[3]، "جو شخص اللہ کا فرمانبردار ہو وہ ہمارا دوست ہے اور جو اللہ کا نافرمان ہو وہ ہمارا دشمن ہے اور ہماری ولایت نہیں پہنچتی مگر عمل اور ورع کے ذریعے"۔
نتیجہ: اس بات کے پیش نظر کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) علمائے فریقین کے عظیم استاد ہیں، ان میں سے ایک بڑے شاگرد امام اعظم ابوحنیفہ اہل سنت کے بڑے امام ہیں جن کے اپنے اعتراف اور اقرار کے مطابق امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے سامنے دو سال زانوئے تلمذ تہ کیے اور آپ کی شاگردی کا اعزاز حاصل کیا، لہذا اہل سنت اور شیعہ قوم کو چاہیے کہ اپنے اس امام کی معرفت حاصل کریں جنہوں نے فریقین کے اساتذہ کے دامن کو علم و عمل کے موتیوں سے بھردیا، معرفت کے بعد امام کی اطاعت کو اختیار کریں، اسی امام کی اطاعت جس کے شاگرد، اس کی شاگردی اختیار کرنے پر فخر و ناز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جس امام نے دنیا بھر میں مختلف علوم کے چراغ اور ہدایت کے دیے جلا دیے اور جہالت کے اندھیروں کو زائل اور گمراہی کے خطرناک راستوں کو واضح کرتے ہوئے اسلام کو سربلند اور حق کو سرفراز کردیا، اپنے کردار سے دیانت کا درس دے دیا اور رہتی دنیا تک اپنے اقوال زرین اور اعمال خالص کے ذریعے عالم کون و مکاں میں صداقت کا جھنڈا لہرا دیا اور صادق آل محمد (ص) بن کر ولایت آل محمد (ص) کو اہل مشرق و مغرب کے لئے واضح و ثابت کردیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] بحار الأنوار، ج23، ص300۔
[2] المحجّة البیضاء، محسن فیض کاشانی، ج4، ص356.
[3] اصول کافی، ج3، ص 190.

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 9 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 45