خلاصہ: اللہ تبارک و تعالیٰ مشورہ لینے سے اور ہر چیز سے بے نیاز ہے، تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملائکہ کو جو خلافت کا مسئلہ بتایا، اس کی وجہ کیا تھی؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تعالٰی نے جو خلافت کا مسئلہ ملائکہ کو بیان فرمایا، وہ مشورے کے لئے نہیں تھا، کیونکہ اللہ مشورے سے بے نیاز ہے۔ وہ بیان کرنا اس لیے تھا کہ ملائکہ کو اِس انسان کے کمال کے راستے میں قرار پانا چاہیے۔ ملائکہ انسان کے وجود سے متعلق ہونے والے تھے۔ اللہ تبارک و تعالٰی ایسا انسان خلق کرنا چاہتا تھا کہ سب ملائکہ اِس انسان کے شؤون میں سے قرار پائیں، روایات کے مطابق ملائکہ کو انسان کے خادموں میں سے ہونا چاہیے، اور یہ بات بہت بھاری ہے۔
ملائکہ قدسی عالَم میں رہتے تھے اور کوئی ان پر فوقیت حاصل نہیں کرسکتا تھا، وہ قدسیت کے لحاظ سے اللہ تعالٰی کی ربوبیت کے شؤون میں سے تھے، اب وہ ایسی مخلوق سے متعلق ہونا چاہتے ہیں جو خلیفۃ اللہ ہے اور کیونکہ اس مخلوق کا تعلق زمین سے ہے اور محدودیت میں رہنے والی ہے تو ان کے لئے یہ بات بھاری اور مشکل تھی۔ کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ قدسی مخلوق، زمینی مخلوق کی خدمت گزار بن جائے؟!
اسی لیے اللہ تعالٰی انسان کے مقام کی ان کے لئے وضاحت کرتا ہے، انسان کی ساخت کی وضاحت میں انسان کا تعارف کرواتا ہے۔ ایسے حقائق کہ اگر انسان کے لحاظ سے دیکھا جائے تو استعداد اور صلاحیت ہیں اور اگر انسانِ کامل کے لحاظ سے دیکھا جائے تو فعلیت اور تحقق ہے۔ فرق استعداد اور فعلیت میں ہے، ورنہ سب انسانوں میں یہ قابلیت پائی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[اقتباس از کتاب: سیرہ تربیتی پیامبرن، حضرت آدم علیہ السلام، محمد رضا عابدینی]
Add new comment