اولوالعزم انبیاء (علیہم السلام) کے سلسلہ میں مختصر وضاحت

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: اولوالعزم انبیاء کا قرآن اور روایات میں تذکرہ ہوا ہے۔ اس مضمون میں تمام انبیاء کے بارے میں بالکل مختصر گفتگو کی گئی ہے۔ پھر عزم کے معنی کے بارے میں جو تین نظریے پائے جاتے ہیں ان کو مدلل طور پر پیش کیا گیا ہے، نیز اولوالعزم انبیاء کے بارے میں کچھ روایات بھی نقل کی گئی ہیں۔

اولوالعزم انبیاء (علیہم السلام) کے سلسلہ میں مختصر وضاحت

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مقدمہ: لفظ اولوالعزم، قرآن کریم میں صرف ایک بار ذکر ہوا ہے۔ سورہ احقاف میں ارشاد الہی ہے: "فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُل[1]"، "پیغمبر آپ اسی طرح صبر کریں جس طرح پہلے کے صاحبان عزم رسولوں نے صبر کیا ہے"۔ انبیاء (علیہم السلام) ایسے انسان ہیں جن کو اللہ تعالی نے چنا اور منتخب کیا ہے۔ ان حضرات کا عالم غیب سے رابطہ ہوتا ہے اور لوگوں کو ہدایت کرنا ان کی ذمہداری ہے۔ قرآن کریم میں 25 یا 26 انبیاء کا نام آیا ہے۔ بعض آیات میں نام کے بغیر بعض انبیاء کے صفات کا تذکرہ ہوا ہے۔ پہلے پیغمبر حضرت آدم (علیہ السلام) تھے جو جنت میں پیدا ہوئے، ان کے پہلے وصی، ان کے بیٹے حضرت "ہبۃ اللہ" تھے[2] اور آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جو شہر مکہ میں پیدا ہوئے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہلے وصی حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) ہیں اور آیات قرآن کے مطابق، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دینِ اسلام، عالمی دین بن جائے گا[3] اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آخری جانشین حضرت امام مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) ہیں جو دین و عدل کو ساری دنیا میں قائم کریں گے۔ علامہ طباطبائی کے نظریہ کے مطابق، پہلی آسمانی کتاب اور شریعت، حضرت نوح (علیہ السلام) پر نازل ہوئی۔[4] جناب ابوذرؒ نے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کی ہے، اس کے مطابق، انبیاء (علیہم السلام) کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے جن میں 313 رسول تھے۔[5]
اولو العزم اور عزم کے معنی: اولوالعزم کے معنی "صاحبانِ عزم " کے ہیں۔ اولو العزم سے مراد کیا ہے اور اولوالعزم انبیاء کون ہیں، اس سلسلہ میں تین نظریے پائے جاتے ہیں:
صاحبانِ صبر: بعض مفسرین نے عزم کو صبر میں معنی کیا ہے یعنی اولوالعزم انبیاء وہ انبیاء ہیں جو احکام الہی کی تبلیغ کے راستہ میں مشکلات اور دشواریوں میں صبر و تحمل اختیار کرنے والے تھے، کیونکہ آیت اولوالعزم میں، صفتِ صبر کو انبیاء اولوالعزم کے لئے اہم صفت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔[6]
صاحبانِ عہد: بعض مفسرین نے کچھ روایات کا سہارا لیتے ہوئے، لفظ اولوالعزم میں عزم کو عہد کے معنی میں لیا ہے۔ بعض نے اس معنی کو سورہ احزاب کی آیات 7 اور 8 سے ماخوذ کیا ہے، کیونکہ ان آیات میں حضرات نوح، ابراہیم، موسی عیسی اور پیغمبر اسلام (علی نبینا و آلہ و علیہم السلام) جیسے بڑے انبیا٫ سے عہد و میثاق لینے کی بات ہوئی ہے۔ نیز سورہ طہ میں آدم (علیہ السلام) کا تذکرہ ہوا ہے جو عہد و میثاقِ الہی پر عمل کرنے میں کامیاب نہ ہوئے اور اس کامیاب نہ ہونے کو عزم کا نہ پایا جانا کہا گیا ہے، ارشاد الہی ہے: "وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَىٰ آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً"[7]، "اور ہم نے آدم سے اس سے پہلے عہد لیا مگر انہوں نے اسے ترک کردیا اور ہم نے ان کے پاس عزم و ثبات نہیں پایا"۔ اگر عزم کے معنی عہد و میثاق کے ہوں[8] تو اولوالعزم سے مراد وہ انبیاء ہیں جن سے اللہ تعالی نے اپنی عبودیت اور مکمل اطاعت[9] یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آنحضرت کے اہل بیت (علیہم السلام) کی ولایت[10]  کا عہد لیا ہے۔
صاحبانِ شریعت: بعض دیگر مفسرین نے روایات کے پیش نظر، ان انبیاء کو انبیاء اولوالعزم میں تفسیر کیا جو صاحبانِ کتاب و شریعت تھے۔[11] جیسے حضرت امام رضا (علیہ السلام) سے روایت منقول ہوئی ہے کہ آپ (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا: " إنما سمي أولوا العزم أولي العزم لانهم كانوا أصحاب الشرائع والعزائم وذلك أن كل نبي بعد نوح عليه السلام كان شريعته ومنهاجه وتابعا لكتابه إلى زمن إبراهيم الخليل عليه السلام، وكل نبي كان في أيام إبراهيم وبعده كان على شريعته ومنهاجه وتابعا لكتابه إلى زمن موسى عليه السلام، وكل نبي كان في زمن موسى وبعده كان على شريعة موسى ومنهاجه وتابعا لكتابه إلى أيام عيسى عليه السلام وكل نبي كان في أيام عيسى عليه السلام وبعده كان على منهاج عيسى وشريعته وتابعا لكتابه إلى زمن نبينا محمد (ص) فهؤلاء الخمسة أولوا العزم فهم أفضل الانبياء والرسل عليهم السلام وشريعة محمد (ص) لا تنسخ إلى يوم القيامة ولا نبي بعده إلى يوم القيامة فمن إدعى بعده نبوة أو أتى بعد القرآن بكتاب فدمه مباح لكل من سمع ذلك منه [12]"،"اولوالعزم (انبیاء) کو اولوالعزم کہا گیا، کیونکہ وہ صاحبانِ شریعت اور دین تھے، کیونکہ نوح (علیہ السلام) کے بعد ہر نبی انہی کی شریعت اور طریقہ پر تھا اور انہی کی کتاب کا پیروکار تھا ابراہیم خلیل (علیہ السلام) کے زمانہ تک، اور ہر نبی جو ابراہیم کے زمانہ میں تھا، ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت اور طریقہ پر تھا اور انہی کی کتاب کا پیروکار تھا موسی (علیہ السلام) کے زمانہ تک، اور ہر نبی جو موسی (علیہ السلام) کے زمانہ میں تھا، موسی (علیہ السلام) کی شریعت اور طریقہ پر تھا اور انہی کی کتاب کا پیروکار تھا عیسی (علیہ السلام) کے زمانہ تک اور ہر نبی جو عیسی (علیہ السلام) کے زمانہ میں اور ان کے بعد تھا، عیسی (علیہ السلام) کی شریعت اور طریقہ پر تھا اور ان کی کتاب کا پیروکار تھا ہمارے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ تک، لہذا یہ پانچ (انبیاء)، اولوالعزم ہیں اور یہ سب انبیاء اور رسولوں (علیہم السلام) سے افضل ہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت قیامت کے دن تک منسوخ نہ ہوگی، اور نہ ہی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد قیامت کے دن تک کوئی نبی ہے اور جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد نبوت کا دعوی کرے یا قرآن کے بعد کوئی کتاب لائے تو اس کا خون ہر اس شخص کے لئے جائز ہے جو اس سے ایسی بات (دعوائے نبوت اور قرآن کے بعد کوئی کتاب لانا) سنے"۔
مرحوم علامہ طباطبائی کا کہنا ہے کہ اگرچہ بعض انبیاء کی آسمانی کتاب تھی، لیکن ان کی کتاب، مستقل اور نئے احکام و شریعت کی کتاب نہیں تھی، جیسے حضرت آدم، شیث، ادریس اور داود (علیہم السلام) کی بھی کتاب تھی، لیکن اولوالعزم نہیں تھے۔[13] روایت میں اولوالعزم انبیاء کے مصادیق اور نام بتائے گئے ہیں۔ ابن ابی یعفور نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے: "سادَةُ النَّبيّينَ و المُرسَلينَ خَمسَةٌ ، و هُم اُولو العَزمِ مِن الرُّسُلِ و علَيهِم دارَتِ الرَّحى: نُوحٌ، و إبراهيمُ، و موسى، و عيسى، و محمّدٌ صلَّى اللّه ُ علَيهِ و آلهِ و على جَميعِ الأنبياءِ"[14]، "انبیا٫ اور رسولوں کے سردار پانچ ہیں اور وہ اولوالعزم رسول ہیں اور )نبوت کی) چکّی ان کے اردگرد گھومتی ہے: نوح، ابراہیم، موسی، عیسی اور محمد، اللہ کا درود ہو آنحضرت پر اور آنحضرت کی آل پر اور سب انبیاء پر"۔
غور طلب بات یہ ہے کہ انبیاء اولوالعزم کا موضوع اور اس کا ائمہ معصومین (علیہم السلام) کی ولایت سے تعلق، متعدد روایات میں بیان ہوا ہے[15]، منجملہ ایک روایت میں ائمہ (علیہم السلام) کو انبیاء اولوالعزم کے علم، معجزات اور فضیلت کا وارث بتایا گیا ہے۔[16]
نتیجہ: اللہ تعالی نے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اولوالعزم انبیاء کی طرح صبر کرنے کا حکم دیا ہے۔ اولوالعزم کے معنی "صاحبانِ عزم" کے ہیں اور لفظ عزم کے سلسلے میں تین نظریے پائے جاتے ہیں، نیز اولوالعزم انبیاء کی تعداد کے بارے میں مفسرین کے مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ مگر یہ واضح اور متفق علیہ بات ہے کہ سب انبیاء کے سید و سردار رسول اکرم حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] سورہ احقاف، آیت 35۔
[2] علامه مجلسی، ترجمه حیاة القلوب، ج1، ص44۔
[3] سورہ توبہ، آیت 33، سورہ فتح، آیت 28، سورہ صف، آیہ 9۔
[4] ترجمہ المیزان فی تفسیر القرآن، ج4، ص147۔
[5] عَنْ أَبِی ذَرٍّ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ: قُلْتُ یا رَسُولَ اللَّهِ كَمِ النَّبِیونَ قَالَ مِائَةُ أَلْفٍ وَ أَرْبَعَةٌ وَ عِشْرُونَ أَلْفَ نَبِی قُلْتُ كَمِ الْمُرْسَلُونَ مِنْهُمْ قَالَ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ. بحارالانوار، ج11، ص32۔
[6] تفسیر عاملی، ج7، ص533 ; تفسیر آیات الاحکام، ص680 ; تفسیر مراغی، ج 21، ص132 ; التحریر والتنور، ج26، ص57.
[7] سورہ طہ، آیت 115.
[8] تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر، ج6، ص342۔ کنزالدقائق، محمد بن محمد رضا قمی مشهدی، ج8، ص360۔
[9]  بحارالانوار، ج11، ص35. تفسیر القرآن الکریم، ج6، ص342۔
[10] بحارالانوار، ج11، ص35. المیزان، ج2، ص213 ; تفسیر الصافی، ج3، ص342، تفسیر قمی، ج2، ص66 و کنزالدقائق، ج8، ص360۔
[11] المیزان، ج2، ص213 ; جوامع الجامع، ج6، ص27 و 29 ; روح البیان، ج8، ص495 ; کنزالدقائق، ج12، ص203 و تفسیر المبین، ص550۔
[12] عيون أخبار الرضا (ع)، شیخ صدوق، ج1، ص86۔
[13] المیزان، ج 2، ص142 سے ماخوذ۔
[14] الکافی، ج1، باب طبقات الانبیا٫ والرسل، حدیث 3۔
[15] الکافی، کلینی‌، ج1،ص416؛ بحارالانوار، مجلسی‌، ج26،ص382، ج44،ص226۔
[16] بحارالانوار ج2، ص205۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
4 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 50