دنیا کا انسان کے لئے طفیلی ہونا

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: اسمیں کوئی شک نہیں ہے کہ کائنات کی خلقت انسان کی مرہون منت ہے لہذا انسان کو چاہئے اپنی عظمت کو پہنچانے اور دنیا کے لہو و لعب کا شکار نہ بنے۔

دنیا کا انسان کے لئے طفیلی ہونا

 

اسلامی تصور کائنات میں انسان کی ایک عجیب داستان سامنے آتی ہے، اسلامی نقطہ نگاہ سے وہ صرف ایک راست قامت چلنے پھرنے اور بولنے والا انسان ہی نہیں، قرآن حکیم کی نظر میں اس کی حقیقت اس سے کہیں زیادہ گہری اور پراسرار ہے کہ چند جملوں میں اس کی توصیف کی جا سکے۔ قرآن حکیم میں انسان کی توصیف بھی بیان کی گئی ہے اور مذمت بھی۔
قرآن کی عالی ترین تعریفیں بھی انسان کے بارے میں ہیں اور سخت ترین مذمت بھی۔ جہاں اسے زمین و آسمان اور فرشتوں سے برتر پیش کیا گیا ہے وہاں اسے جانوروں سے پست تر بھی دکھایا گیا ہے۔ قرآن کی نگاہ میں انسان میں یہ قوت ہے کہ وہ قوائے عالم کو مسخر کر سکتا ہے اور فرشتوں سے بھی کام لے سکتا ہے لیکن اس کے برعکس وہ اپنے برے اعمال کی پاداش میں اسفل السافلین میں بھی گر سکتا ہے ذیل میں انسان کی ان قابل تعریف صفات کا ذکر کیا جاتا ہے جو قرآن حکیم کی مختلف آیات میں انسانی اقدار کے طور پر ذکر ہوئی ہیں:
۱۔ انسان زمین پر خدا کا خلیفہ ہے۔(یہاں قرآنی آیات کا مفہوم بیان کیا گیا ہے نہ کہ تفصیلی ترجمہ(’’اور جب تیرے رب نے انسان کو پیدا کرنا چاہا تو فرشتوں کو آگاہ کیا فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں اس کو پیدا کرے گا جو فساد کرے گا اور خون بہائے گا؟ اللہ نے فرمایا: بے شک مجھے وہ معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔‘‘( سورہ بقرہ آیت ۳۰)
۲۔ انسان کی علمی استعداد دوسری تمام مخلوقات کی ممکنہ استعداد سے زیادہ ہے۔
اور اللہ نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھا دیئے (اسے تمام حقائق سے آشنا فرمایا) پھر ”ملکوتی مخلوق“ فرشتوں سے کہا: مجھے ان کے نام بتاؤ کہ کیا ہیں؟ وہ بولے: ہم کو معلوم نہیں مگر جتنا کہ تو نے ہمیں خود سکھایا، فرمایا: اے آدم تو ان کو ان چیزوں کے نام سکھا دے اور آگاہ کر پھر اس نے سب چیزوں کے نام سکھا دیئے اور آگاہ کر دیا تو اللہ نے فرشتوں سے فرمایا: کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزوں کو خوب جانتا ہوں وہ بھی جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے اور وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو۔“( سورہ بقرہ آیت ۳۱ تا ۳۳) اسکے علاوہ اور بھی آیات ہیں مگر مقالہ ھذا کی تنگی کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں ذکر نہیں کیا جاسکتا۔[۱]
قرآن کی نگاہ میں انسان کی اہمیت کو درک کرلینے کے بعد یہ بات بھی روز روشن کی طرح واضح اور روشن ہے کہ یہ کائنات اپنی پوری وسعتوں اور عظمتوں کے ساتھ انسان کے کمال تک پہنچنے کے لئے خلق کی گئی ہے اور حقیقت میں اس دنیا کی تخلیق کا اصلی مقصد انسان ہے اور دوسری تمام مخلوقات انسان کے طفیل میں خلق کی گئی ہیں۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: ’’ هُوَ الَّذي خَلَقَ السَّماواتِ وَ الْأَرْضَ في‏ سِتَّةِ أَيَّامٍ وَ كانَ عَرْشُهُ عَلَى الْماءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً‘‘(ہود/۷)اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا ہے اور اس کا تخت اقتدار پانی پر تھا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے بہتر عمل کرنے والا کون ہے۔
آیت مبارکہ کا مضمون یہ ہے کہ خدائے متعال نے آسمانوں، زمینو اور عالم طبیعت کو اس لئے خلق کیا ہے تاکہ انسان کی خلقت کے اسباب فراہم ہوجائیں اور پھرانسان کو خلق کیا تاکہ اسکی آزمائش کرے۔
آیت کریمہ کا مضمون حیرت انگیز ہے اور اس کا درک کرنا ہمارے طرز تفکر اور رفتار میں کافی اثر ڈالتا ہے یہ حقیقت ہے کہ خدائےمتعال نے عالم وجود کو اس عظمت کے ساتھ اس لئے خلق کیا ہے کہ اس میں انسان کو پیدا کرے تاکہ وہ اس کے امکانات سے استفادہ کرکے اپنے کمال تک پہنچے، انسان کی قدر و منزلت اور اس کی ذمہ داری کی گہرائی کی دلیل ہے۔
گذشتہ مطالب کا ذکر کرنا اس لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے وجود کی قدر و قیمت کو دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں درک کرے اور جان لے کہ وہ کیڑے اور مینڈک جیسی مخلوقات کے مانند ایک سادہ مخلوق نہیں ہے، بلکہ وہ ایک عظیم اور قدر و منزلت والی مخلوق ہے کہ جس کی زندگی کی تسہیل کے لئے بہت سے سرمایہ کو وجود بخشا اور کائنات کو اسی آب و تاب کے ساتھ خلق کیا تاکہ ایک باشعور، با ارادہ اور صاحب اختیار مخلوق کی حیثیت سے اپنے وجود کی قدر و قیمت کو سمجھے لہذا پہلی فرصت میں ایک عاقل اور متفکر وجود ہونے کے ناطے ایک انسان کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنی اہمیت کو درک کرے۔
مگر افسوس کا عالم یہ ہے کہ دنیا میں بعض انسان بلکہ اکثر افراد ایسے ہیں جو اپنے آپ کو دنیا کے لئے وقف کردیتے ہیں، جبکہ حقیقت میں اللہ نے دنیا کو انسان کے لئے وقف کیا ہے، مگر انسان اپنی نادانی کے سبب دنیا کو اپنے لئے متولی اور خود کو اسکے لئے موقوف بنالیتا ہے۔
آخر میں رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث نقل کرنا غلط نہ ہوگا جس میں آپ نے فرمایا:’’ يَا أَبَاذَرٍّ مَا مِنْ‏ شَابٍ‏ يَدَعُ‏ لِلَّهِ‏ الدُّنْيَا وَ لَهْوَهَا وَ أَهْرَمَ‏ شَبَابَهُ‏ فِي طَاعَةِ اللَّهِ إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ أَجْرَ اثْنَيْنِ وَ سَبْعِينَ صِدِّيقاً‘‘[۲] اے ابوذر ! جو بھی جوان خدائے متعال کے لئے دنیا اور اس کے لہو لعب کو چھوڑ کر اپنی جوانی کو خدا کی اطاعت میں بوڑھا کرلے، اللہ بھی اسے بہتر(۷۲)صدیقین کا اجر و ثواب عطا کرتا ہے۔
لہذا ضروری ہے کہ انسان اپنی عظمت کو پہنچانے اور دنیا کو اصل اور خود کو اس کا مرید نہ بنائے کہ جس کی وجہ سے دوسری مصبتوں کا سامنا کرنا پڑے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[۱] مزید معلومات کے لئے مندرجہ ذیل آیات کی طرف رجوع فرما سکتے ہیں: ۱۔ سورہ اعراف/۱۷۲۔ ۲۔ سورہ حم/۷۔۹۔ ۳۔سورہ طہٰ/۱۲۲۔ ۴۔سورہ احزاب/۷۲۔ ۵۔اسرائیل/۷۰۔ ۶۔سورہ شمس/ ۷۔۹. ۷. سورہ انشقاق/ ۶۔ وغیرہ۔
[۲] بحار الانوار،ج۷۴، ص۸۴، مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى‏،دار إحياء التراث العربي‏،بيروت‏، ۱۴۰۳ ق‏، چاپ دوم۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
4 + 8 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 74