تعلیم دینے کے ساتھ شفقت کی ضرورت

Mon, 08/06/2018 - 18:40

خلاصہ: حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے رسالہ حقوق کی ابتدا میں فرمایا ہے: "اعلم رحمک اللہ"، اس فقرے پر توجہ کرتے ہوئے چند نکات ماخوذ ہوتے ہیں، جن کو اس مضمون میں بیان کیا جارہا ہے۔

تعلیم دینے کے ساتھ شفقت کی ضرورت

بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امام سجاد (علیہ السلام) رسالہ حقوق کی ابتدا میں فرماتے ہیں: "اعلم رحمك الله أن لله عليك حقوقا محيطة بك..."جان لو اللہ تم پر رحمت کرے کہ اللہ کے تم پر حقوق ہیں جنہوں نے تمہیں گھیرا ہوا ہے..."۔ [تحف العقول، ص255]
تشریح:
"اِعلم رحمك الله"، "جان لو اللہ تم پر رحمت کرے"
: ظاہری طور پر اس شخص کو خطاب ہے جس نے حضرت امام سجاد (علیہ السلام) سے چاہا کہ آپؑ حقوق بیان فرمائیں، لیکن درحقیقت آپؑ کے مخاطب تمام وہ لوگ ہیں جو اس رسالہ کا مطالعہ کریں اور مطالعہ سے ان کا مقصد، امامؑ کے کلام کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہو۔ [ترجمه و شرح رساله حقوق]
آپؑ نے یہ جو فرمایا: "اِعلم، جان لو"، کیونکہ کمال کے درجات کو طے کرنے اور ذمہ داری کو ادا کرنے کی شرط علم اور آگاہی ہے، اسی لیے بہت سارے جرم اور غلطیاں، جہالت اور نہ جاننے سے جنم لیتی ہیں۔ آپؑ کے اس رسالہ حقوق کو مطالعہ کرنے سے قارئین کے علم و معرفت میں اضافہ ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے ذمے مختلف حقوق کو پہچاننے کی وجہ سے اپنی زندگی کے ہر لمحہ کو تبدیل کرنا چاہیں گے۔
پھر آپؑ نے جو مخاطب کے لئے رحمت کی دعا مانگی ہے، اس سے یہ درس ملتا ہے کہ وعظ و نصیحت، اخلاق کی تعلیم اور لوگوں کی تربیت، محبت اور شفقت کے ساتھ ہونی چاہیے نہ کہ تندمزاجی اور تلخ کلامی کے ساتھ۔ جب استاد شاگرد کو درس دیتا ہے تو صرف معلومات کو منتقل کردینا کافی نہیں ہے، بلکہ علم کو منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ اچھے اخلاق اور برتاؤ کو بھی منتقل کرنا چاہیے جو محبت اور شفقت کے ذریعے ممکن ہے۔ مختلف تعلیمی درسگاہوں میں دکھائی دیتا ہے کہ استاد درس تو پڑھاتا ہے مگر جب اس سے درس کے متعلق سوال کیا جائے تو سخت مزاجی سے جواب دے گا یا ایسا برتاؤ کرے گا کہ شاگرد پھر کبھی بھی سوال نہ کرسکے، یہ تعلیمی آداب کے بالکل خلاف ہے اور انسانی حقوق کی پامالی ہے۔
حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) اپنے ارشادات کی ابتدا میں اور حقوق کو بیان کرنے سے بالکل پہلے اللہ سے مخاطب کے لئے دعا مانگ رہے ہیں کہ اللہ تم پر رحمت کرے۔ آپؑ نے اس دعا میں وہ چیز طلب کی ہے جو بسم اللہ الرحمن الرحیم میں ذکر ہوئی ہے، یعنی اللہ کی رحمت۔ جب مخاطب یہ دیکھتا ہے کہ اس کا استاد اتنا کریم ہے کہ جو علم عطا کرنے سے پہلے شاگرد پر اللہ کی رحمت نازل ہونے کا طلبگار ہے تو شاگرد، استاد کے اخلاص اور محبت سے لطف اندوز ہوکر، استاد کے علم کو دل کی اتھاہ گہرائی سے حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔
یہ نکتہ بھی غورطلب ہے کہ اگر ہم آپؑ کے ان بیانات کا مطالعہ کرنا چاہیں اور ان پر عمل کرنا چاہیں تو اگر اللہ چاہے تو ہم آپؑ کی اس دعائے رحمت سے بھی فیضیاب ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[تحف العقول، ابن شعبة الحراني، مؤسسة النشر الاسلامي (التابعه) لجماعة المدرسين بقم المشرفة (ايران)]
[ترجمه و شرح رساله حقوق، سيد محسن حجت]

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 3 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 46