خلاصہ: دین اسلام نے مذاق میں بھی جھوٹ بولنے سے منع کیا ہے۔
بتاتے ہیں کہ پرانے زمانے میں ایک چرواہا اپنی بکریاں چرایا کرتا تھا، ایک دن اس نے یوں ہی دل لگی کرتے ہوئے شور مچایا:’’لوگو!دوڑو دوڑو بھیڑیا آگیا‘‘ بستی سے تمام لوگ دوڑ پڑے؛ مگر وہاں جاکر دیکھا کہ چرواہا مزے میں ہنس رہا ہے اور بکریاں صحیح و سالم چر رہی ہیں، وہ لوگ بہت شرمندہ ہوئے اور واپس چلے گئے۔
اسی طرح ایک دن چرواہے کو پھر شرارت سوجھی اور بھیڑیا بھیڑیا کہتے ہوئے مدد کے لئے لوگوں کو پکارنے لگا، لوگ اس کی مدد کو دوڑے؛ لیکن شرمندہ ہوکر واپس آنا پڑا۔
ایک دن ایسا ہوا کہ سچ مچ بھیڑیا آگیا، اب وہ لاکھ شور مچاتا ہے اور آواز پر آواز دے رہا ہے؛ مگر کوئی مدد کو نہیں آیا کیوں کہ اب اس کا اعتبار اٹھ چکا تھا ، اور نتیجہ یہ ہوا کہ بھیڑیا اس کی تمام بکریاں چٹ کرگیا۔
پیارے نوجوانو! دیکھو ہمارے آخری نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں کتنی اچھی نصیحت فرمائی ہے اگر اس چرواہے کو یہ نصیحت یاد ہوتی تو وہ یقیناً اس بھاری نقصان سے بچ جاتا: ’’
أَنَا زَعِيمٌ بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ لِمَنْ حَسُنَ خُلُقُهُ مَعَ النَّاسِ- وَ تَرَكَ الْكَذِبَ فِي الْمِزَاح" (مشكاة الأنوار في غرر الأخبار، النص، ص:70) میں اس مومن کی جنت کا ذمہ دار ہوں جو لوگوں کے درمیان اچھے اخلاق سے پیش آتا ہے اور مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولتا ہے۔
منبع و ماخذ
مشكاة الأنوار في غرر الأخبار، النص، طبرسى، على بن حسن،ناشر: المكتبة الحيدرية، نجف،1344 ش، چاپ دوم
Add new comment