خلاصہ: انسان اپنے گناہوں کی وجہ سے نیکی کے راستہ کو اپنانے سے محروم رہ جاتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
برے اعمال انسان کے نفس پر اتنا اثر کرتے ہیں کہ ان اعمال کی وجہ سے اس کا دل اپنی اصلی حالت سے نکل جاتا ہے اور حقائق کو سمجھنے سےمحروم ہوجاتا ہے اور اس کے بعد وہ اچھائی اور برائی کی تمیز کرنے کے لائق نہیں رہتا۔ جس کے بارے میں زرارہ نے امام محمد باقر(علیہ السلام) سے ایک روایت کو اس طرح نقل کیا ہے: «مَا مِنْ عَبْدٍ إِلَّا وَ فِي قَلْبِهِ نُكْتَةٌ بَيْضَاءُ فَإِذَا أَذْنَبَ ذَنْباً خَرَجَ فِي النُّكْتَةِ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ فَإِنْ تَابَ ذَهَبَ ذَلِكَ السَّوَادُ وَ إِنْ تَمَادَى فِي الذُّنُوبِ زَادَ ذَلِكَ السَّوَادُ حَتَّى يُغَطِّيَ الْبَيَاضَ فَإِذَا غَطَّى الْبَيَاضَ لَمْ يَرْجِعْ صَاحِبُهُ إِلَى خَيْرٍ أَبَدا؛ کوئی بھی بندہ نہیں جس کے دل میں ایک سفید نکتہ موجود نہ ہو، جب وہ کسی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو نکتہ کالا ہوجاتا ہے اور اگر اس کے بعد وہ توبہ کرلییتا ہے تو وہ نکتہ دوبارہ سفید ہوجاتا ہے لیکن اگر وہ اپنے گناہ کے بعد گناہ کو انجام دیتا ہے تو وہ نکتہ اور زیادہ کالا ہوجاتا ہے یہاں تک کہ اس کے بعد وہ گناہگار کبھی بھی نیکی کی طرف پلت نہیں سکتا»،[ کافی، ج۲،ص ۲۷۳]۔
*محمد ابن یعقوب کلینی، ج۲،ص ۲۷۳، دارالکتب الاسلامیہ، تھران، ۱۴۱۷ق۔
Add new comment