چکیده: اس دور میں چند جوانب سے رسول اسلام ہم لوگوں کے لئے آئیڈیل ہیں
دور حاضر کا اگر ہم غور وفکر اور روشن ضمیری سے جائزہ لیں اور اپنے پیارے نبی ص کی سیرت وشریعت سے اسکو مطابقت کریں تو انصاف کے دائرے میں تمام ادیان سے اکمل طور پر آپ ص کی شریعت ہمارے لئے کامیابی کی ضامن اور آپ ص کی سیرت بہترین نمونہ عمل ثابت ہوگی۔ دور حاضر کے افکار کے مطابق چند نمونے ملاحظہ کریں؛۔
آج کا انسان اپنے آپ کو مجموعی طور پر بہترین زمانے والا تصور کرتا ہے اور بہترین مراحل زندگی گزارنے والا تصور کرتا ہے اوراس ذہنیت کی تائید قرآن مجید نے بھی فرمائی ہے اور امت محمدی ص جو آخری امت ہے اسے بہترین امت قرار دیا ہے۔[1] اور نمونہ عمل کےطور پر بھی بہترین رسول ص کو بھیجا لہذا کہا جا سکتا ہے کہ خداوندعالم نے بہترین ہونے کے تصور رکھنے والے افراد کے راہ عمل وسیرت میں بھی بہترین بننے کے لئے بہترین رسول ص کا انتخاب فرماکر بھیجا ہے ۔
انسان باالخصوص آج کا انسان جب تک اپنے ہدف و مقصد کو حاصل نہیں کرلیتااور مکمل طور پر صحیح راہ و روش حاصل نہیں کرلیتا ہے تب تک اپنے طریقوں کو بدلتا رہتا ہے اور جب بہترین روش کو پا لیتا ہے تو تو ہمیشہ کے لئے اسی کو اختیار کر لیتا ہے اس لحاظ سے بھی اگر ہم دیکھیں تو خداوندعالم نے بھی انسانوں کی رشدصلاحیت اورتبدیلی افکار کودیکھ کر ۵/ شریعتیں نازل فرمائی اور جب خدا کے بندوں نے ہمارے نبی ص کے توسط سے آنے والی شریعت کے ذریعہ بہترین راہ و روش زندگی کو پالیا تو آپ کی شریعت کو ہمیشہ کے لئے باقی و قائم رہنے والی بنا دیا اور پچھلی شریعتوں کو ختم کردیا ۔ اس بات کا اشارہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمایا ہے [2] اور ایک مقام پر واضح طور پر فرمایا ہے کہ اے رسول :جب بھی ہم [اپنے حکم ونشانی] کو ختم کرتے ہیں یا دلوں سے مٹا دلیتے ہیں تو اس کی جگہ اسی جیسی یا اس سے بہتر نشانی لےکر آتے ہیں [3]
آج کا انسان زندگی کے لئے کسی ایسے قانونی مجموعہ ور ایسے رہبر و راہنما کے نقش قدم ڈھونڈتا ہے جو سب کے لئے مساوات و برابری کا پیغام دیتا ہو ،جہاں حق و باطل عیاں ہو ،گویا وہ قانونی مجموعہ اور رہبر عالم گیر ہو اب اگرمحمد مصطفی ص کی پیش کردہ شریعت اسلامی کو دیکھا جائے تو جہاں خود یہ شریعت عالمگیر ہے وہیں ہمارا بہترین اسوہ و آئیڈیل بھی پوری عالم انسانیت کے لئے ہے چنانچہ قرآن مجید نے اس سلسلے میں متعدد مقامات پر ارشاد فرمایا ہے ۔ مجموعہ قوانین قرآن مجید اپنے بارے میں آواز دیتا ہے کہ پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جس نے حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب فرقان [قرآن] کو انے بندے پر نازل کیا تاکہ عالمین کو ڈرا سکے[4] ۔ دوسری جگہ اپنے حبیب ص سے کہلواتا ہے کہ " میری طرف فرقان [قرآن] کی وحی کی گئی ہے تاکہ اس کے ذریعہ میں تمہیں اور جہاں تک میرا پیغام پہونچ سکے ان سب کو ڈرا سکوں [5] اسی طرح خود پیامبر اکرم ص کے لئے بھی فرماتا ہے کہ اے رسول میں نے آپ کو عالمین کے لئے بشارت دینے والااور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے [6]
آج کا انسان خصوصا نسل نو اپنے آپسی مشکلات و مسائل کا حل لڑائی جھگڑوں کے بجائے پیار محبت ،بحث و گفتگو سے کرنا چاہتے ہیں اب اگر ہم قرآن مجید اور اپنے پیارے حبیب ص کی سیرت کا مطالعہ کریں تو اس حوالے سے بے شمار موارد نظر آئیں گے جہاں آج کی ذہنیت کے بارے میں قرآن نے تاکید بھی فرمائی ہے اور ہمارے نبی ص نے اس کو عملی کرکے بھی دکھایا ہے ، قرآن کا ارشاد ہے کہ اے میرے حبیب ص آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ دعوت دیں اور بہترین طریقہ سے لوگوں سے بات کریں [7]
آج کا انسان ہر موڑ پر سوالات کرنے،کھوج و چھان بین،ریسرچ اور کشف حقائق کرنے پر زیادہ زور دیتا ہے اس میدان میں بھی خداوندعالم نے دور حاضر کو پیاسا نہیں رکھا اور ہمارے رسول ص کی زبانی ایسے ایسے مسائل اور علوم کو بیان فرمادیا کہ آج تک انسانیت اسکو سمجھنے میں لگی ہوئی ہے اور انسانیت کے سوالات کے جواب دینے کے لئے ایسی شریعت کو پیش کیا ہے کہ قیامت تک کے پیش آنے والے سوالات کا جواب اسکے دامن میں موجود ہے بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے جوابات اسکے صحیح اور حقیقی وارث سے حاصل کئے جائیں ،ہر کس وناکس کے بس میں نہیں ہے کہ شریعت محمدی ص کی روشنی میں ہر سوال کا وہ جواب دےسکے قرآن مجید خود فرماتا ہے کہ خداوندعالم نے قرآن میں ہر طرح کی نشانیاں رکھی ہیں ، ان کی تاویل سب نہیں جانتے ہیں اگر تمہیں جاننا ہو تو اللہ اور علم میں رسوخ رکھنے والے افراد کی طرف رجوع کیا جائے [8] ۔ اسی طرح دوسری جگہ فرمایا ہے کہ اگر تم کسی چیز کے بارے میں نہیں جانتے ہو تو تم اہل ذکر سے سوال کرلو۔[9]
یہ بات بھی واضح ہے کہ دینی معاملات اور احکام میں آج کا انسان یہ چاہتا ہے کہ ہمارے آسان احکام ہوں مشکل مسائل کو ہم سے دور رکھا جائے ، ہم سے زور زبردستی نہ کی جائے ،ہمیں ہر طرح کا اختیار دے دیا جائے تو خداوندعالم نے آج کے انسان کی اس فطرت کو مد نظر رکھا۔سیرت محمد مصطفی ص میں اسکو عملی طور پر دکھایا ہے چنانچہ آپ ص نے اپنی پوری زندگی میں احکام و مسائل دینی میں کبھی زبردستی عمل نہیں کروایا ہے ہمیشہ حدود فطری کا لحاظ کرتے ہوئے ہر ایک کسی بھی مسئلہ کے ماننے اور اس پر عمل کرنے کا اختیار دیا ۔ قرآن مجید نے بھی متعدد جگہوں پر ارشاد فرمایا ہےایک جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ ہم ہر انسان کو اسکی وسعت سے زیادہ تکلیف و ذمہ داری نہیں دیتے ہیں [10] ۔ دوسری جگہ ارشاد ہواکہ دین کے معاملے میں کوئی حرج و رکاوٹ کو دور کردیا [11] ۔ ساتھ ہی ساتھ بھول چوک کی صورت میں گذشتہ امتوں کے مقابل اس امت کے لئے لطف کرتے ہوئے بھول چوک کو معاف کردیا گیا ہے [12] ۔لیکن خداوند عالم نے اس بات کو واضح کردیا کہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تم کو ہم نے پیدا کیا ہم ہی تم کو رزق و نعمات سے نوازتے ہیں لہذا ہمارے احکام پر عمل کرو،اور اخلاقی اعتبار سے شکرانے کے لئے الہی احکامات پر عمل کرنا فطرت اور عقل کا تقاضا بھی ہے اس لئے کہ دنیا دراصل ایک دوسرے جہان تک پہونچنے کا وسیلہ ہے یہاں ہمیشہ نہیں رہنا ہے یہاں کا کیا ہوا دوسری دنیا میں ملنا ہے لہذا جوجیسا وہاں پانا چاہتے ہو ویسا ہی اس دنیا میں کرنا ہوگا۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ جو شخص بھی ذرہ برابر نیکی کرے گا اسکا بدلہ اسے مل کر رہے گا اور جو شخص بھی ذرہ برابر برائی کرے گا اسکی سزااسے مل کر رہے گی۔[13]
اب ہمارا فرض ہے کہ جب بہترین خالق نےاپنےبھیجے ہوئے بہترین نمونہ عمل و آئیڈیل کے ذریعہ ہمارے لئے بہترین طور پر بہترین مسائل ،بہترین قوانین و ضوابط کو عملی طور پر پیش کیا ہے تو ہمیں بھی بہترین انداز میں عمل کرکے اپنی دنیا و آخرت کو بہترین بنانے کی کوشش کرنا چاہئے۔
[1] آل عمران، آیت/۱۱۰
[2] ملاحظہ ہو؛۔ سورہ شوریٰ،آیت/۱۳۔ سورہ اعراف،آیت/۶۲و ۱۴۵ ۔سورہ شعراء ،آیت / ۱۰۶تا ۱۱۱۔
[3] سورہ بقرہ، آیت/ ۱۰۶
[4] سورہ فرقان،آیت/ ۱
[5] سورہ انعام،آیت/ ۱۹
[6] سورہ
[7] سورہ نحل،آیت/ ۱۲۵
[8] ماخوذ ازسورہ آل عمران،آیت/۷
[9] سورہ نحل،آیت/۴۳۔ سورہ انبیاء ،آیت/۷
[10] سورہ انعام،آیت/ ۱۵۲
[11] سورہ حج،آیت/۷۸
[12] بقرہ،آیت /۲۸۶
[13] سورہ زلزال،آیت/ ۷و ۸
Add new comment