خلاصہ: دنیاوی اور مادی سوچ کے مطابق لوگ رزق و روزی کمانے کی خاطر، واجب اعمال جیسے نماز، روزہ، حج، زکات، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور کتنے دیگر واجبات کو چھوڑ دیتے ہیں یا ان میں کوتاہی کرتے ہیں، جبکہ وہ اس بات سے غافل ہیں کہ جو رزق اللہ تعالی نے ان کے لئے مقرر کیا ہے اور رزق دینے کی ذمہ داری اللہ نے اٹھا رکھی ہے، اس سے زیادہ انہیں نہیں مل سکتا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دنیا سے محبت، انسان کو مختلف غلطیوں کے لئے تیار کردیتی ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ "حُبُّ الدنيا رَأسُ كلِّ خطيئةٍ" [1]، "دنیا سے محبت ہر گناہ کی جڑ ہے"، جب دنیا سے محبت بڑھنے لگتی ہے تو پھر صرف مکروہات کو انجام دینے اور مستحبات کو ترک کرنے تک بات نہیں رہتی، بلکہ آہستہ آہستہ انسان واجبات کو بھی چھوڑنے لگتا ہے اور حرام کاموں کے ارتکاب سے نہیں ڈرتا، جبکہ وہ بالکل غلط راستے پر جارہا ہے، اس بات سے غافل ہوتے ہوئے کہ یہ سب کچھ ایک ہی وجہ سے اس سے سرزد ہورہا ہے، وہ ہے دنیا سے محبت!۔ دنیا سے محبت کا ایک برا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کا مال حاصل کرنے میں انسان کی لالچ بڑھ جاتی ہے اور بڑھتے بڑھتے انسان اپنی دینی اور اسلامی ذمہ داریوں کو نظرانداز کرتا ہوا اور ان میں کوتاہی کرتا ہوا بالکل ان کو چھوڑ دیتا ہے تاکہ زیادہ مال جمع کرلے، جبکہ اس بات سے غافل ہوگیا ہے کہ اس کے رزق کی مقدار، رازقِ کائنات نے پہلے سے مقرر کررکھی ہے، دینی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے سے اس کو ہرگز اس سے زیادہ نہیں ملے گا۔ مگر لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر واجب کو بجالانے میں کچھ دیر کردیں تو کوئی حرج نہیں، اسی وقت میں ذرا زیادہ کمائی کرلیں گے، اذان کے وقت نماز کو نظرانداز کرکے اپنی دکانداری، کمائی اور اداراتی کاموں میں لگے رہتے ہیں، اگر دین کے حقیقی راہنماوں کی ہدایات پر عمل کیا جائے تو دنیا و آخرت کے فائدوں سے انسان کا دامن بھر جائے گا۔ حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "لايَشغَلكَ رِزقٌ مَضمونٌ عَن عَمَلٍ مَفروضٍ[2]"، "ضمانت شدہ رزق تمہیں واجب عمل سے روک نہ لے"۔ کیونکہ رزق اور اس کی مقدار انسان کے لئے مقرر اور ضمانت شدہ ہے، وہ تو انسان کو مل کر ہی رہنا ہے، جس کا ملنا یقینی ہے اس کی خاطر انسان واجب عمل کو نظرانداز کیوں کردے؟! صرف ایک ذہنی وہم اور تخیلاتی افکار کی بنیاد پر کہ اگر اِس وقت میں اپنے کام کو چھوڑ کر مثلاً نماز کی طرف چلا جاوں تو جو کمائی میں نے اِسی وقت میں کرنی ہے وہ پھر حاصل نہیں ہوگی اور جو منفعت مجھے اِس وقت میں ہونی ہے اس سے بے نصیب رہ جاوں گا، جبکہ ہرگز ایسا نہیں ہے، بلکہ اسے اللہ کی اس بات پر یقین نہیں آیا جہاں پر مالک کائنات نے ارشاد فرمایا ہے: "وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّہ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ[3]"، "اور زمین پر چلنے والی کوئی مخلوق ایسی نہیں ہے جس کا رزق خدا کے ذمہ نہ ہو۔ وہ ہر ایک کے سونپے جانے کی جگہ اور اس کے قرار کی منزل کو جانتا ہے اور سب کچھ کتاب مبین میں محفوظ ہے"۔ بنابریں جب انسان کے رزق کا ذمہ دار، خود اللہ ہے تو پھر انسان کو واجب عمل کے موقع پر رزق کے حصول کے ذرائع کو چھوڑنے پر پریشانی کیوں ہو؟! انسان کو چاہیے کہ اپنے واجبات کو عین وقت پر ادا کرے اور اس وقت پر روزی کمانے کے بارے میں بالکل بے فکر ہو کر واجب کی ادائیگی میں مصروف ہوجائے کیونکہ اگر موذن سے اذان دلوا کر نماز کی طرف بلانے والا اللہ ہی ہے تو رزق دینے والا بھی وہی اللہ ہے جو سورہ ذاریات میں ارشاد فرماتا ہے: "إِنَّ اللَّہ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ[4]"، "بیشک رزق دینے والا, صاحبِ قوت اور زبردست، صرف اللہ ہے"۔ اللہ تعالی اتنا کریم اور رحیم ہے کہ نہ انسان کی دنیاوی تقاضوں اور جسمانی ضروریات کو نظرانداز کرتا ہے اور نہ آخرت کی ضروریات کو پورا کرنے میں کوئی کمی چھوڑتا ہے، حلال رزق کمانے کے لئے بھی ترغیب دلاتا ہے اور آخرت کے رزق اور وہاں کی پاکیزہ زندگی کے لئے بھی انسان کو واجب اعمال کا حکم دیتا ہے۔ نماز کی طرف بلانے والا وہی اللہ ہے جس نے اہل بیت (علیہم السلام) کے ذریعے انسان کو رزق و روزی کمانے کی ترغیب دلائی ہے۔
رزق حلال کے حصول کی ترغیب روایات کی روشنی میں: حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "الْكَادُّ عَلَى عِيَالِهِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ[5]"، "جو شخص اپنے گھرانہ کے لئے محنت کرے وہ اللہ کی راہ میں مجاہد کی طرح ہے"۔ نیز حضرت علی ابن موسی الرضا (علیہما السلام) فرماتے ہیں: "الَّذِي يَطْلُبُ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ مَا يَكُفُّ بِهِ عِيَالَهُ أَعْظَمُ أَجْراً مِنَ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ[6] "، "جو شخص اللہ عزوجل کے فضل سے ایسا مال طلب کرتا ہے جس سے اس کے گھرانہ کی ضرورت پوری ہوجائے تو اس کا ثواب اللہ عزوجل کی راہ میں مجاہد سے زیادہ بڑا ہے"۔نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں: "مَن طَلَبَ الدُّنيا حَلالاً ؛ اِستِعفافا عَنِ المَسأَلَةِ ، وسَعيا عَلى أهلِهِ ، وتَعَطُّفا عَلى جارِهِ ، لَقِيَ اللّه َ ووَجهُهُ كَالقَمَرِ لَيلَةَ البَدرِ[7]"، "جو شخص دنیا کو حلال طریقہ سے، مانگنے کی شرم سے اور اپنے گھرانہ کے لئے محنت کرنے کے لئے اور اپنے ہمسایہ کی مدد کرنے کے لئے طلب کرے تو اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح ہوگا"۔ لہذا حلال کمائی کے حصول کی اتنی ترغیب دلائی گئی ہے۔
فرائض کی ادائیگی پر تاکید اور اداء نہ کرنے کی مذمت روایات کی روشنی میں: حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) قرآن کریم کی اس آیت "وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِّمَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَىٰ"[8]، "اور میں بہت زیادہ بخشنے والا ہوں اس شخص کے لئے جو توبہ کرلے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے اور پھر راہ ہدایت پر ثابت قدم رہے" میں عمل صالح کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں: "وأما العمل الصالح فهو أدآء الفرائض[9]"، "اور عمل صالح، فرائض کی ادائیگی ہے"۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "وقوّة الهوى من الشهوة، وأصل علامات الشهوة أكل الحرام، والغفلة عن الفرائض، والاستهانة بالسنن والخوض في الملاهي[10]"، "اور قوتِ ہوی، شہوت میں سے ہے اور شہوت کی بنیادی علامتیں حرام کھانا، فرائض سے غفلت کرنا، سنتوں کو حقیر سمجھنا اور فضول کاموں میں غوطہ زن ہونا ہیں"۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے جب صابرین متصبِّرین کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا: "الصابِرونَ على أداءِ الفرائضِ، و المُتَصَبِّرُونَ على اجتِنابِ المَحارِمِ[11]"، "فرائض کی ادائیگی پر صابر اور حرام کاموں سے پرہیز پر متصبِّر"۔ یعنی حرام کاموں سے پرہیز پر صبر کرنا، واجبات کی ادائیگی پر صبر کرنے سے زیادہ مشکل ہے اور انسانی جذبات اور تقاضوں کی وجہ سے ضروری ہے کہ انسان اپنے آپ کو صبر پر مجبور (تصبّر) کرے۔[12]
حضرت امام محمد ابن علی (علیہماالسلام) (ظاہراً حضرت امام محمد باقر علیہ السلام مراد ہیں) نے فرمایا: "إذا كان يوم القيامة نادى مناد: أين الصابرون؟ فيقوم عنق من الناس فينادى مناد: أين المتصبّرون على ترك المعاصى فيقوم عنق من الناس، فينادى مناد أين المتصبرون، فيقوم عنق من الناس فقلت: جعلت فداك و ما الصابرون؟ قال: الصابرون على أداء الفرائض و المتصبرون على ترك المعاصى[13]"، "جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک منادی ندا دے گا: صابر کہاں ہیں؟ تو لوگوں کا ایک گروہ کھڑا ہوجائے گا، پھر ایک منادی ندا دے گا: متصبّر کہاں ہیں تو لوگوں کا ایک گروہ کھڑا ہوجائے گا، تو میں (راوی) نے عرض کیا: میں آپ (علیہ السلام) پر قربان ہوجاوں، صابر کون ہیں؟ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا: فرائض کی ادائیگی پر صابر اور گناہوں کو چھوڑنے پر متصبّر"۔
نتیجہ: حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی اس حدیث شریف کے مطابق انسان خیال رکھے کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ واجب اعمال کو نظرانداز کردے، اس رزق کے حصول کے لئے جس رزق کی اللہ تعالی نے ضمانت لے رکھی ہے۔ جیسا کہ اگر کوئی شخص اپنے کسی دوست کی ذمہ داری اٹھا لے تو جس کی ذمہ داری اٹھائی گئی ہے وہ اس لحاظ سے بے فکر ہوجائے گا اور آرام و سکون کے ساتھ اپنے دوسرے کاموں کو نمٹائے گا، اسی طرح جب اللہ تعالی نے رزق کی ذمہ داری لے رکھی ہے تو انسان کمائی کے لئے محنت کرنے کے ساتھ، واجبات کی ادائیگی کے موقع پر رزق کے بارے میں بے فکر رہے کیونکہ رزق کا ذمہ دار رازق کائنات ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ميزان الحكمہ، ج4، ص80۔
[2] بحارالانوار: ج 78 ص 304۔ تحف العقول، حدیث 21۔
[3] سورہ ہود، آیت 6۔
[4] سورہ ذاریات، آیت 58۔
[5] كافى، ج 5، ص 88، ح 1۔
[6] كافى، ج 5، ص 88، ح ۲۔
[7] كافى، ج5، ص78۔
[8] سورہ طہ، آیت 82۔
[9] بحار الأنوار، علامہ مجلسی، ج27، ص197۔
[10] بحار الأنوار، علامہ مجلسی، ج1، ص130۔
[11] ميزان الحكمہ، محمدی ری شہری، ج6، ص157۔
[12] ميزان الحكمہ، محمدی ری شہری، ج6، ص157۔
[13] بحار الانوار، علامہ مجلسی، ج7، ص181۔ مسند الإمام الباقر أبي جعفر محمد بن علي(ع)، عزیزاللہ عطاردی، ج۵، ص448۔
Add new comment