خلاصہ: جوانوں کی دین سے دوری کا ایک سبب ان کے والدین کی کوتاہیاں ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آج ہمارے معاشرے کی ایک بہت بڑی مشکل، ہمارے جوانوں کا دین سے بیزار ہونا ہے, ہمارے جوان دین سے اتنی دور ہوگئے ہیں کہ انھیں توحید اور نبوت کے معنی تک نہیں معلوم، کیوں ہمارے معاشرے کے جوانوں نے اس راستے کو اختیار کیا ہے؟ رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) اپنی اس حدیث میں اس کی جانب اس طرح اشارہ فرمارہے ہیں:«وَيْلٌ لِأَوْلَادِ آخِرِ الزَّمَانِ مِنْ آبَائِهِمْ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مِنْ آبَائِهِمُ الْمُشْرِكِينَ فَقَالَ لَا مِنْ آبَائِهِمُ الْمُؤْمِنِينَ لَا يُعَلِّمُونَهُمْ شَيْئاً مِنَ الْفَرَائِض؛ وای ہے آخری زمانے کی اولادوں پر ان کے والدین کی وجہ سے، کسی نے کہا؟ جن کے والدین مشرک ہیں، فرمایا: نہیں، جن کے والدین مؤمن ہیں جنھوں نے اپنی اولاد کو فرائض کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا»[جامع أحاديث الشيعة ج۲۶، ص۸۵۰]۔
رسول خدا کی اس حدیث کے مطابق جوانوں کی دین سے دوری کا سبب ان کے والدین ہیں۔
ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنی اولاد کی تربیت کس طرح کریں تاکہ وہ دین سے محبت کریں اور اس کے احکام کو بجالائے، اس کے جانب رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اس طرح ارشاد فرمارہے ہیں:
کسی نے پوچھا کہ ہم کیسے اپنے گھر والوں کو جھنم کی آگ سے محفوظ رکھیں
حضرت نے فرمایا:« َاعْمَلُوا الْخَيْرَ وَ ذَكِّرُوا بِهِ أَهْلِيكُمْ وَ أَدِّبُوهُمْ عَلَى طَاعَةِ اللَّه؛ نیکی پرعمل کرو اور اپنے گھر والوں کو نیکی کی طرف متوجہ کرو اور ان کو اللہ کی اطاعت کا ادب سکھاؤ»[مستدرك الوسائل و مستنبط المسائلج۱۲، ص۲۰۱].
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اس حدیث میں فرمارہے ہیں کہ اچھے کاموں پر پہلے خود عمل کرو اس کے بعد اپنے گھر والوں کو اس کی طرف راغب کرو اسی لئے بعض دانشور کہتے ہیں کہ تم جس طرح عمل کروگے تمھاری اولاد اسی طرح اس عمل کو اپنائیگی
*جامع أحاديث الشيعة( للبروجردي) آقا حسين بروجردى، انتشارات فرھنگ سبز ،تھران، ۱۳۸۶، ج۲۶، ص۸۵۰۔
*مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل، حسین ابن محمد تقی نوری، مؤسسة آل البيت عليهم السلام، قم، ۱۴۰۸،ج۱۲، ص۲۰۱۔
Add new comment