اسلام میں تعلیم و تربیت

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ:اسلام کی نظر میں تعلیم و تربیت ایک اہم مسئلہ ہے اس لئے اس کی طرف ایک خاص توجہ دی ہے، اس مضمون میں اس پر مختصر روشنی ڈالی گئی ہے۔ 

اسلام میں تعلیم و تربیت

                  اسلام میں تعلیم و تربیت

تحریر: محمد عباس شارب

دین مبین اسلام ، ہمہ گیر نظام کا حامل دین ہے کیونکہ  اسلام نے، دیگر الہی ادیان کی طرح تمام انسانی ضروریات کو بنحو احسن اور مکمل طور پر پیش کیا ہے  مثال کے طور پر اقتصادی، معاشراتی، سیاست اور حکومت  وغیرہ کے مسائل اور خاص طور پر  تعلیم و تربیت کی طرف توجہ۔اس ہمہ گیری اور جامعیت کے راز کو مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’ بنیادی طور پر  دین کو انسانی زندگی کا نظام سمجھا گیا ہے(۱) اس لئے عقلی طور  پر اس نظام کو  انسانی زندگی کے تمام امور اور مسائل  پر مشتمل ہونا چاہئے۔

 انسانی زندگی کی اہم ترین ضرورت تعلیم و تبیت ہے کیونکہ اگر تعلیم نہیں ہوگی تو انسان کا شعور بیدار نہیں  ہو سکتا اور پھر اس مقام تک پہونچنے سے ممکن ہے کہ بیزار رہے جس مقام تک پہونچنے کے لئے انسان کو خلق کیا گیا ہے اور وہ مقام، قربت الہی ہے کہ جس کے حصول کے لئے معرفت اور آگاہی درکار ہے۔تعلیم  و تربیت کا مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ خداوند عالم نے’’ قلم اور  ہر وہ چیز جس سے لکھا جاتا ہو، اس کی قسم کھائی ہے‘‘ (۲)اور پیغمبر اسلام سے قرآنی لب و لہجہ میں گفتگو کا آغاز بھی ’’پڑھنے  اور قرائت کے حکم ‘‘سے کیا(۳)۔

یہی نہیں، بلکہ جب تعلیم یافتہ افراد اور جاہل افراد کے موازنہ کی بات آتی ہے تو قرآن ذہن انسانی کو جھنجوڑنے کے  ایک سوال پیدا کرتا ہے کہ’’ کیا وہ لوگ جو تعلیم یافتہ ہیں  وہ ان لوگوں کے برابر ہیں جو لوگ  پڑھے لکھے نہیں ہیں؟!‘‘(۴) اور  ’’علم نہ رکھنے والے افراد کو بار بار خطاب کیا جاتا ہے کہ وہ صاحبان علم سے سوال کریں اور پوچھیں‘‘(۵)۔ ان بعض شواہد  اور مثالوں سے  یہ بات روشن پو جاتی ہے کہ  نگاہ  رب العزت میں تعلیم کی کیا قدر و منزلت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے دین اسلام کے پیروکاروں کو باشعور رہنے اور آگاہانہ زندگی  بسر کرنے کی دعوت دیتا ہے اور پھر اس کے حصول کے راستے کو بھی تعلیم  کی صورت میں  پیش کرتا ہے۔

اس کا مطلب قطعی یہ نہیں ہوا کہ جو شخص صاحب علم ہو گیا وہ مقام قربت تک پہونچ جائیگا بلکہ خداوند عالم نے جس طرح علم اور تحصیل علم کے لئے توجہ دلائی ہے بالکل اسی طرح قرآن مجید میں تقریبا ۵۰۰ آیات احکام کو قرار دیا جو کہ انسانی زندگی کو صحیح انداز میں بسر کرنے کا سلیقہ سیکھاتی ہیں، ان کو بیان کر کے یہ اعلان کر دیا کہ محض آگہی کافی نہیں ہے بلکہ آگہی کے ساتھ ساتھ زندگی میں عمل بھی ضروری ہے۔ اس بات کو روشن اور واضح انداز میں اس آیت میں بیان  کر دیا ہے ﴿ وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِمَّا عَمِلُوا ﴾(۶)’’ اور ہر ایک کے لئے اس کے اعمال کے مطابق درجات ہیں اور تمہارا پروردگار ان کے اعمال سے غافل نہیں ہے ‘‘۔

بیان شدہ آیت سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ جس قدر اسلام کی نظر میں تعلیم اہم ہے اسی طرح اس کے ساتھ عمل بھی ضروری ہے اور ان دونوں  کے ساتھ ہی اسلام کا نظام تعلیم و تربیت مکمل اور نتیجہ بخش ہوگا۔

خداوند عالم ہم سب کو قرآنی نظام زندگی پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عنایت کرے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالے:

۱۔  شريعت در آينه معرفت، آيت الله عبدالله جوادي آملي، ص 93؛ و شيعه در اسلام، علامه سيد محمد حسين طباطبايي، ص 3.

2۔  سوراہ قلم ، آیت ۱۔

3۔سوری علق، آیت ۱۔

4۔  سورہ زمر ، آیت ۹۔

۵۔ سورہ نحل ، آیت ۴۳۔

۶۔سورہ انعام ، آیت ۱۳۲۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 9 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 73