خلاصہ: اللہ نے ہر انسان کو کسی نہ کسی ہنر، صلاحیت یا دولت سے نوازا ہے لہٰذا ہر انسان اس ہنر،صلاحیت یا دولت کو پروردگار کے شکرانہ کے طور پر مستحق تک پہونچائے یہ انسان کے اولین فرائض میں سے ایک فریضہ ہے
ایک بار ایک شخص نے ایک نیا مکان خریدا اسمیں پھولوں کا باغیچہ بھی تھا مگر پڑوس کا مکان پرانا تھا اور اسمیں کئی لوگ رہتے تھے ، کچھ دن بعد اسنے دیکھا کہ پڑوس کے مکان سے کسی نے بالٹی بھر کوڑا اسکے گھر کے دروازہ پر ڈال دیا ہے ، شام کو اس شخص نے ایک بالٹی لی اسمیں تازہ پھل رکھے اور اس گھر کے دروازہ کی گھنٹی بجائی ، اس گھر کے لوگ بے چین ہوگئے اور وہ سوچنے لگے کہ وہ صبح کی داستان کی وجہ سے لڑنے آیا ہے اور وہ پہلے سے ہی تیار ہوگئے اور برا بھلا بولنے لگے مگر جیسے ہی انھوں نے دروازہ کھولا وہ حیران ہوگئے تازے تازے پھولوں کی بالٹی کے ساتھ مسکان چہرے پر لئے نیا پڑوسی سامنے کھڑا تھا سب حیران تھے ، اس نے کہا جو میرے پاس تھا وہی میں آپ کے لئے لایا ہوں۔۔۔۔!
سچ ہے جن کے پاس جو ہے وہی وہ دوسروں کو دے سکتا ہے ذرا سوچئے کہ آپ کے پاس دوسروں کے لئے کیا ہے؟
دنیا میں ہر شخص کسی نہ کسی غم، تکلیف، مصیبت یا مشکل کا شکار ضرور ہے۔ لازمی نہیں کہ اس کی یہ مشکل یا تکلیف کا حل صرف اور صرف مالی امداد ہی ہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس بات کی کھوج لگائیں کہ ہم دوسروں کے لئے کیا کر سکتے ہیں اور کس زاویہ سے اس کی مدد کر سکتے ہیں؟؟ آیئے اُن مثبت رویوں، اخلاقی اقدار اور صلاحیتوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں جس سے ہم کسی ضرورت مند کی زندگی میں مثبت تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں۔ دیکھنے کو یہ معمولی چیزیں ہیں مگر یہ کسی شخصیت پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہیں اس کا اندازہ ہمیں ان رویوں کو اپنانے کے بعد ہی ہو سکتا ہے۔
۱۔ مسکراہٹ
ہمیں چاہئے کہ دوسروں کو اپنی مسکراہٹ کا تحفہ دیں۔ ہر جگہ، ہر قسم حالات میں لوگ کسی نہ کسی طرح کے مسائل میں مبتلا ہیں۔ مشکلات کم کرنے کے لئے ہم مسکراہٹ دے کر ان کے اندر امید کی روشنی پیدا کر سکتے ہیں۔ حتی کہ مسکراہٹ خوف اور پریشانی کو بھی کم کر دیتی ہے۔ مسکرانے سے غصے کے جذبات اور ذہنی تناؤ ختم ہو جاتا ہے جو کہ انسان کو امید کی روشنی دکھاتا ہے اور مشکل حالات کو آسانی میں تبدیل کر دیتا ہے۔
2۔ علم
ہر کسی کے پاس کوئی نہ کوئی کہانی سنانے کو ہوتی ہے۔ ایسی کہانیاں دوسروں کی مدد کر سکتی ہیں۔ جب ہم دل و جان سے کسی کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو سب سے بڑی چیز جو ہم دوسروں کو دے سکتے ہیں، وہ علم ہے۔ تجربات پر مبنی ایسے علم سے دوسروں کی کئی رکاوٹیں دور ہو سکتی ہیں۔ اس لئے جب بھی ہم کسی کے ساتھ علم کے حوالے سے گفتگو کریں تو اس میں سچائی اور تجربے کا ہونا ضروری ہے۔ اس وجہ سے ہم پر دوسرے لوگ زیادہ اعتماد کرنے لگیں گے۔ علم کی سچائی بہت طاقتور سچائی ہے اس لئے یہ عملی طور پر بھی بہترین نتائج دیتی ہے۔
اقراء کے لفظ سے شروع ہونے والی پہلی وحی بھی علم ہی کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔۔۔
رِبِّيْ زِدْنِيْ عِلْمًا
کے الفاظ بھی علم کی افادیت کی طرف صریحاً اشارہ ہے۔۔۔ علاوہ ازیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہےکہ ’’ماں کی گود سے لے کر لحد تک علم حاصل کرو‘‘ ہماری توجہ اس جانب مبذول کرتا ہے کہ بقاء کا راز بھی علم ہی میں مضمر ہے۔۔۔ کسی کو مثبت اور علم دینا کسی کو زندگی کے حقیقی معنوں سے روشناس کرنا ہے۔
جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے تعلیم اور علم دیا ہے ان پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی تعلیم اور علم دوسروں تک بھی پہنچائیں۔ خدا کی طرف سے جو تحفے ہمیں عطا کئے گئے ہیں اگر ہم ان کا صحیح استعمال نہ کریں گے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم ان تحفوں کو ضائع کر دیں گے۔ اگر ہم اپنی تعلیم اور علم کو دوسروں کے لئے استعمال کریں گے تو اس سے ان کی زندگیوں میں بہترین پیدا ہوگی اور خود ہمارے علم میں بھی اضافہ ہوگا۔
اسکے علاوہ ہزاروں چیزیں ہیں جو ہمارے پاس ہیں اور ہم لوگوں کو دے سکتے ہیں مگر مقالہ کی تنگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام چیزوں کو ذکر نہیں کیا جاسکتا ہے بطور خلاصہ ہر شخص کچھ نہ کچھ دے سکتا ہے اگر آپ پیسہ نہیں دے سکتے تو آپ دوسروں کو وقت، علم، مشورہ، توجہ، امید، مسکراہٹ اور محبت دے سکتے ہیں۔ ان چیزوں کی ہر کسی کو ضرورت ہوتی ہے یہ چیزیں بلاامتیاز مذہب اور رنگ و نسل کسی کو بھی دے سکتے ہیں۔
جن لوگوں کو اللہ نے علم اور فہم دے رکھی ہے ان پر ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے علم اور فہم میں دوسروں کو بھی شامل کریں۔
وقت اور دولت دونوں ہی قابل قدر چیزیں ہیں، جس قدر بھی ہو سکے یہ دوسروں کو دینی چاہئیں۔
اگر آپ کسی کو ہنر سکھائیں گے تو آپ اس شخص کو روزگار دینے میں مدد گار ہوں گے۔
انسانی تعلقات ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ آپ تعلقات سے دوسروں کو فائدہ دیں گے تو یہی تعلقات آپ کو بھی فائدہ پہنچائیں گے۔
جب آپ توجہ سے کسی کی بات سنیں گے تو آپ کے عزت و احترام میں اضافہ ہوگا۔
آپ کا تجربہ حقیقت میں آپ کو بتائے گا کہ دوسروں کو مدد دینے میں آپ کس قدر طاقتور ہو جائیں گے۔
زندگی کے ہر شعبہ میں توازن پیدا کریں۔
Add new comment