خلاصہ: بعض مرد یہ سوچتے ہیں کہ گھر کے امور کی انجام دہی فقط عورتوں کی ذمہ داری ہے، مرد کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے جبکہ اسلام میں ایسی کوئی فکر نہیں پائی جاتی ہے۔
اگر میاں بیوی گھریلو معاملات میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں تو آپس میں مہربانی اور احسان کا جذبہ پیدا ہوگا اور خدا تعالیٰٰ نے بھی ایسا کرنے والوں پر احسان کرتے ہوئے اتنا ثواب لکھ دیا ہے کہ جسے سن کر انسان کو اپنی عاقبت بخیری کی امید پیدا ہوجاتی ہے جیسا کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا:’’ عَنْ عَلِيٍ ع قَالَ: ... يَا أَبَا الْحَسَنِ قُلْتُ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ اسْمَعْ مِنِّي وَ مَا أَقُولُ إِلَّا مِنْ أَمْرِ رَبِّي مَا مِنْ رَجُلٍ يُعِينُ امْرَأَتَهُ فِي بَيْتِهَا إِلَّا ....‘‘ جامع الاخبار سے ایک روایت نقل ہوئی ہے جو امیرالمؤمنین (ع)سے مروی ہے’’ کہ ایک دن میں گھر میں فاطمہ زہرا(س) کے ساتھ بیٹھ کر عدس (دال)صاف کررہا تھا، اتنے میں رسول خدا ﷺ تشریف لائے اور فرمایا: اے ابالحسن، میں نے جواب دیا: لبیک یا رسول اللہﷺ! تو اپ نے فرمایا: اے علی مجھ سے [یہ] باتیں سن لو اور میں خدا کی اجازت کے بغیر بات نہیں کرتا: جو شخص اپنی بیوی کا اس کے گھر میں ہاتھ بٹائے اور مدد کرے تو خدا تعالیٰٰ اسے بدن پر موجود ہر بال کے بدلے میں ایک سال کی عبادت جو دن کو روزہ اور رات کو نماز میں مشغول رہنے کے ساتھ ہو اور اسے صابرین جیسے حضرت داود، یعقوب، اور عیسیٰ(ع) کا ثواب عطا کرے گا‘‘(جامع الاخبار، ص102)
لہذا ہر میاں بیوی کو چاہئے کہ وہ اسلام کے بتائے ہوئے راستہ پر چلے اور اس پر عمل کرے، اس طرح سے ان کی زندگی نہ صرف اچھی گزرے گی بلکہ وہ زندگی دوسرے کے لئے نمونہ عمل بھی بن جائے گی۔
حوالہ:
(جامع الاخبار، ص102، شعيري، محمد بن محمد، ناشر: مطبعة حيدرية، نجف، تاریخ طباعت مشخص نہیں ہے، چاپ اول)
Add new comment