زوجین کے درمیان صلح وصفائی

Sun, 07/23/2017 - 08:29

زوجین کے درمیان خوشگوار زندگی کے لئے آپس میں صلح و آشتی نہایت ضروری ہے۔

زوجین کے درمیان صلح وصفائی

میاں بیوی کے تعلقات کی درستی کسی بھی معاشرے کی مضبوطی اور اس کے استحکام کیلئے ایک بنیادی اور اساسی اہمیت کی چیز ہے۔ ظاہر ہے کہ میاں بیوی کے میل ملاپ اور ان کے اتحاد واتفاق ہی کی بدولت ایک نئے خاندان کی بنیاد پڑتی ہے اور مختلف خاندان کا مجموعہ ہی معاشرہ یا سماج یا سوسائٹی کہلاتا ہے لہذا جن خاندانوں میں باہمی جھگڑے پائے جاتے ہیں یا جن میں اتحاد ویگانگت موجود نہ ہو۔ یا جن میں میاں بیوی کے درمیان تفرقہ اور انتشار پیدا ہو چکا ہو وہ معاشرہ اور سماج حد درجہ کھوکھلا ہوگا اور بہت جلد زوال کا شکار ہو جائے گا اس اعتبار سے میاں بیوی کے درمیان محبت والفت اور باہمی ہم آہنگی پیدا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ دونوں مل کر اپنے حقوق وفرائض بخوبی ادا کر سکیں اور اپنی اولاد کی بھی صحیح تر بیت کر سکیں۔
اس سلسلے میں میاں بیوی کی زندگی ہمیشہ ایک حالت پر قائم نہیں رہتی بلکہ اس میں مختلف موڑوں پر نشیب وفراز آتے رہتے ہیں۔ لہٰذا ایسے موقعوں پر جہاں تک ہو سکے دونوں کو ایک دوسرے کا لحاظ کرتے ہوئے آپس ہی میں سمجھوتہ کر لینا چاہئے اور دونوں کو خدا سے ڈرتے ہوئے اور اس کے حدود کو قائم رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق، خلوص اور باہمی خیر خواہی کے ساتھ ادا کرتے رہنا چاہئے۔ جیساکہ اس سلسلے میں ارشاد باری ہے ’’وَ إِنِ امْرَأَةٌ خافَتْ مِنْ بَعْلِها نُشُوزاً أَوْ إِعْراضاً فَلا جُناحَ عَلَيْهِما أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَ الصُّلْحُ خَيْرٌ وَ أُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ وَ إِنْ تُحْسِنُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كانَ بِما تَعْمَلُونَ خَبيراً ‘‘(النساء/128) اور اگر کوئی عورت شوہر سے حقوق ادا نہ کرنے یا اسکی کنارہ کشی سے طلاق کا خطرہ محسوس کرے تو دونوں کے لئے بہتر ہے کہ کسی طرح آپس میں صلح کرلیں کہ صلح میں بہتری ہے اور بخل تو ہر نفس کے ساتھ حاضر رہتا ہے اور اگر تم اچھا برتاؤ کروگے اور زیادتی سے بچوگے تو خدا تمہارے اعمال سے خوب با خبر ہے۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 1 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 62