خلاصہ: بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ مرد عورتوں پر حاکم ہیں جبکہ اسلام نے اس مقام پر حاکم ہونے کے تصور کو کسی اور انداز میں پیش کیا ہے۔
گھریلو انتظام کے نقطہ نظر سے اسلام نے مرد کو گھرکا رکھوالا یا منتظم تسلیم کیا ہے اس اعتبار سے وہ عورت کا نگراں ومحافظ ہے کیونکہ وہ اپنا مال خرچ کر کے اسے بیاہ کر لاتا ہے اس کے لئے گھر اور دیگر آسائشیں فراہم کرتا ہے ظاہر ہے کہ جب وہ اپنی شریک حیات کیلئے بے انتہا تکلیفیں اور مشقتیں برداشت کرتا ہے تو پھر اسے گھر اور خاندان پر حاکمانہ اختیارات بھی حاصل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے ’’ الرِّجالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّساءِ بِما فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلى بَعْضٍ‘‘ (النساء/34) مرد عورتوں پر نگہبان اور منتظم ہیں۔
بعض حضرا ت نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ مرد عورتوں پر حاکم ہیں الخ۔ قوام، اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی کام کےکرنے یا اس کا انتظام کر نے کا ذمہ دار ہو، گویا کہ مرد عورتوں پر قوام ہیں، گھر کے اقتصادی اور انتظامی امور کے منتظم ہیں اور ان کے حاکم ہیں، خدا نے یہ اصول بیان فر مادیا ۔ اصولی باتیں ذہن میں نہ ہونے کی صورت میں جتنے کام انسان کرے گا وہ غلط تصورات کے ماتحت کرے گا لہٰذا مرد کے حقوق بیان کرتے ہوئے عورت کو پہلے اصولی بات سمجھادی کہ وہ مرد تمہاری زندگی کے امور کا نگہبان اور منتظم ہے اور تم پر حاکم ہے۔
حوالہ:
(المیزان، ج۴،ص341، مترجم:موسوى همدانى سيد محمد باقر، ناشر: دفتر انتشارات اسلامى جامعهى مدرسين حوزه علميه، قم، 1374 ش، چاپ پنجم۔)
Add new comment