خلاصہ: اسلام میں پڑھنے اور تعلیم حاصل کرنے کی بہت زیادہ تأکید کی گئی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایک جوان کو چاہئے کہ وہ اپنے زمانے کے علوم کو حاصل کرے اور اپنے زمانے کے بارے میں اچھی طریقے سے جانکاری رکھے، وہی شخص اپنے مقاصد تک پہونچتا ہے جو علم سے اپنے آپ کو آراستہ کرتا ہے، بے شک وہی کامیاب اور کامران ہوتا ہے لیکن اس کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ اس تعلیم کو حاصل کرنے میں دین کے قوانین پر عمل کرے کیونکہ بغیر دین کے انسان صرف ظاہری اور فانی کامیابی حاصل کرتا ہے اسی لئے ایک مؤمن کو چاہئے کہ وہ اہل بیت(علیھم السلام) کے بتائے ہوئے راستہ کے ذریعہ تعلیم حاصل کرے تاکہ دنیا اور آخرت دونوں میں سعادت اور کامرانی اس کے قدم چومے، اسی لئے امام صادق(علیہ السلام) جوانوں کی تعلیم کی اہمیت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے فرماتے ہیں: «لَسْتُ أُحِبُّ أَنْ أَرَى الشَّابَّ مِنْكُمْ إِلَّا غَادِياً فِي حَالَيْنِ إِمَّا عَالِماً أَوْ مُتَعَلِّماً فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ فَرَّطَ فَإِنْ فَرَّطَ ضَيَّعَ فَإِنْ ضَيَّعَ أَثِمَ وَ إِنْ أَثِمَ سَكَنَ النَّارَ وَ الَّذِي بَعَثَ مُحَمَّداً بِالْحَق؛ میں پسند نہیں کرتا کہ کسی جوان کو دو حالتوں سے خالی دیکھوں، یا وہ عالم ہو یا متعلم، اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو وہ افراط(زیادتی) کا شکار ہوگا اور اگر وہ افراط کا شکار ہوا تو اس نے اپنے آپ کو برباد کردیا اور اگر اس نے اپنے آپ کو برباد کیا تو اس نے گناہ کیا اور اگر اس نے گناہ کیا تو اسی کی جگہ جھنم ہوگی خدا کی قسم جس نے محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو حق کے ساتھ بھیجا»[ بحار الانوار، ج۱، ص۱۷۰]
*محمد باقر مجلسی، دار احیاء التراث العربی،بیروت، دوسری چاپ، ۱۴۰۳ق.
Add new comment