تقوی اور اسکے فوائد قرآن کی نگاہ میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: ہمارے سماج میں بہت سے ایسے افراد ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو دنیا میں اس قدر منہمک کر لیا ہے کہ گویا انھیں آخرت سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے ایسے لوگ ہمیشہ اپنے فائدے کی تلاش میں رہتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے اصل فائدہ اسلام میں جس نے اپنا ہدف اسلام پر عمل کرنا بنایا ہے وہ ہمیشہ فائدے میں رہے ہیں مقالہ ھذا میں تقوی کے فوائد میں کچھ فوائد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس امید کے ساتھ ایک جوان ان  کو پڑھ کر اس پر عمل کرے اور تقوی کو اپنا معیار بنائے

تقوی اور اسکے فوائد قرآن کی نگاہ میں

پاکیزگی اور طہارت ایک ایسی صفت ہے جو ہر مہذب اور شائستہ قوم کے ہاں پسندیدہ خصائل میں شمار کی جاتی ہے اور اس کے برعکس ناپاکی، گندگی اور نجاست وخباثت ایسی بری خصلتیں ہیں جنہیں ہر قوم وملت کے ہاں ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ طہارت اور پاکیزگی کا ایک تعلق انسان کے ظاہر کے ساتھ ہے اور ایک تعلق انسان کے باطن کے ساتھ ہے۔ یہ دو ایسے تعلق ہیں جو دوقوموں کو الگ الگ کردیتے ہیں: وہ قوم جو نورِوحی سے محروم ہوئی،اس کے ہاں ظاہری صفائی کااہتمام تو ملتا ہے لیکن باطنی پاکیزگی کا اس کے ہاں کوئی تصور نہیں پایاجاتا،جب کہ وہ قوم جو نورِالٰہی کی روشن کرنوں سے مستفیدہو اس کے ہاں جس طرح ظاہری پاکیزگی اہم ہے، اس سے کہیں بڑھ کر ان کے ہاں باطنی پاکیزگی کی اہمیت ہے۔انسان ظاہری نجاست سے بچنے کا اہتمام کرے تو یہ ”طہارت“ ہے اور اگر باطنی نجاستوں اور خباثتوں سے خود کو بچائے تو یہ ”تقویٰ“ ہے۔
قرآن کریم نے تقویٰ کے موضوع کو بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے، تقویٰ کی حقیقت اور ضرورت کو بھی اجاگر کیا ہے اور اس تقوی پرملنے والے عظیم انعامات بھی کافی تفصیل کے ساتھ گنوائے ہیں۔
تقوی اختیار کرنےکے بہت سے فائدے ہیں مگر ہم مقالہ کی تنگی کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض فائدے قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے۔
تقویٰ اور محبت الٰہی
قرآن مجید نے تقوی کے فوائد  میں سے ایک فائدہ یہ بیان کیا ہے کہ اس سے انسان کو اللہ تعالی کی محبت نصیب ہوتی ہے۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: " بَلى‏ مَنْ أَوْفى‏ بِعَهْدِهِ وَ اتَّقى‏ فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقين"․[1]ہاں! جوشخص (اللہ تعالی کے ساتھ کیے ہوئے) اپنے اقرار کو پورا کرے اوراللہ تعالیٰ سے ڈرے توبے شک اللہ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
رحمت خدا کے شمول کا سبب
انسان قدم قدم پر اپنے رب کی رحمت کامحتاج ہے اور وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہیں جنہیں اپنے رب کی رحمت سے کچھ حصہ نصیب ہو جائے۔  البتہ یہ بات قابل غور ہے  کہ ایک رحمت تو وہ ہے جو دنیا میں ہر انسان کو حاصل ہے، خواہ کافر ہو یامسلمان اور اسی رحمت کا اثر ہے کہ جس طرح مسلمانوں کو دنیا میں دنیوی نعمتیں ملتی ہیں، اسی طرح کافروں کو بھی دنیوی نعمتیں ملتی رہتی ہیں ،مگر آخرت میں انعامات اور رحمت صرف اہل ایمان کو ملے گی اور کافر اس دن سوائے افسوس کچھ نہ کر پائیں گے۔ یہ دنیوی اور اخروی رحمت جن خوش نصیبوں کو ملتی ہے ان کی ایک صفت تقویٰ ہے ۔ قرآن بیان کرتا ہے:" وَ رَحْمَتي‏ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْ‏ءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذينَ يَتَّقُونَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ الَّذينَ هُمْ بِآياتِنا يُؤْمِنُون"․[2] اورمیری رحمت ہرچیز پر چھائی ہوئی ہے۔ چنانچہ میں یہ رحمت(مکمل طورپر) اُن لوگوں کے لیے لکھوں گا جو تقوی اختیار کریں اور زکات ادا کریں اور جو ہماری آیتوں پرایمان رکھیں۔
خدا سے تقرب کا سبب
تقوی اختیار کرنے سے ایک اہم فائدہ یہ ملتا ہے کہ اہل ایمان کو شیطان، نفس اور دیگر دشمن، مثلا کفار و منافقین کے مقابلے میں خدا کی معیت ، نصرت اور تائید حاصل ہوجاتی ہے، جس سے وہ ان دشمنوں کی کارستانیوں اور ریشہ دوانیوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:" إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذينَ اتَّقَوْا وَ الَّذينَ هُمْ مُحْسِنُونَ "[3]․یقین رکھو کہ اللہ ان کا ساتھی ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو احسان پر عمل پیرا ہیں۔
ناگاہانی خطرات سے بچنے  کاسبب
دنیا میں کتنے شریر و فتنہ پرور انسان اور جنات ہیں جو اہل ایمان کے جان ومال اور ایمان و اعمال صالحہ کو تباہ کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں، اس صورت میں ضرورت ہے کہ کوئی ایسا محفوظ قلعہ ہو جہاں انسان کو ان خطرات سے پناہ ملے اور آخرت میں ناکامی سے حفاظت ہوجائے تو ایسا محفوظ قلعہ تقویٰ ہے۔ قرآن کریم بتلاتا ہے:" وَ يُنَجِّي اللَّهُ الَّذينَ اتَّقَوْا بِمَفازَتِهِمْ لا يَمَسُّهُمُ السُّوءُ وَ لا هُمْ يَحْزَنُون[4]"․ اور جن لوگوں نے تقویٰ اختیار کیا ہے، اللہ ان کو نجات دے کر ان کی مراد کو پہنچا دے گا، انہیں کوئی تکلیف چھوئے گی بھی نہیں اور نہ انہیں کسی بات کا غم ہوگا۔
نوربصیرت اور تقویٰ
مومن کو اللہ ایسا نور بصیرت عطا کرتا ہے جس سے وہ اپنے نفع ونقصان کو اچھی طرح پہچان لیتا ہے اور پھر اسے نفع بخش امور کی توفیق مرحمت کر دی جاتی ہے اوراس کے دل میں نقصان دہ امور کی نفرت ڈال دی جاتی ہے۔ یہ نورِ بصیرت خاص اہل ایمان کو نصیب ہوتا ہے اور یہ خاص اہل ایمان وہ ہیں جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ قرآن مجید کا یہ بیان ملاحظہ کریں:اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کے پیغمبر پرایمان لاوٴ، تاکہ وہ تمہیں اپنی رحمت کے دوحصے عطا فرمائے اور تمہارے لیے وہ نور پیدا کرے جس کے ذریعے تم چل سکو اور تمہاری بخشش ہوجائے۔ اور اللہ بہت بخشنے والا، بہت مہربان ہے۔[5]
اس آیت میں جس نور کے ملنے کاتذکرہ ہے اس سے دو قسم کانور مراد ہے: 1۔دنیا میں نور،یعنی ایمان اور اعمال صالحہ اور بصیرت قرآنی کا نور، جو انسان کو حق پر قائم رکھتا ہے، خواہ ایسا شخص دنیا کے کسی بھی کونے میں چلا جائے، یہ نور اس کے ساتھ رہتا ہے۔
2۔ آخرت میں نور، یعنی جب انسان پل صراط سے گزرنے لگے گا تو یہ نور اس کے لیے روشنی پیدا کرے گا تاکہ اس کے لیے چلنا آسان ہوجائے[6]۔
تقویٰ اور گناہوں کو سمجھنے کا شعور
انسان کے لیے گناہ اس قدر خطرناک نہیں ہے جس قدر گناہ کی ہولناکی اور نقصانات سے غفلت خطرناک ہے، کیوں کہ اس طرح انسان گناہوں میں ڈوبتا چلاجاتا ہے اور اس کے دل میں ان کے نقصانات کا وسوسہ تک نہیں آتا اور یوں وہ توبہ اور استغفار سے یکسر غافل ہوجاتا ہے اور اس طرح ایسا انسان نافرمانیوں کا بوجھ لیے اس دنیا سے چلاجاتا ہے اورتوبہ کے بغیر مر جاتا ہے اور یہ کسی انسان کے لیے بڑی سخت بدبختی ہے کہ وہ توبہ اور استغفار سے محروم رہ کر اس دنیا سے گیا ہو۔ ہاں! جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہیں وہ بے شک معصوم تو نہیں بن جاتے لیکن اس تقوے کی برکت سے انہیں گناہوں کی خطرناکی کا ادراک ہوجاتا ہے اور یہ احساس ہوتے ہی وہ فوراً توبہ اور استغفار کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں، جس سے اللہ کی رحمت ان کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے اور وہ اللہ کی ناراضی سے بچ جاتے ہیں۔ قرآن کریم نے یوں سمجھایا ہے:" إِنَّ الَّذينَ اتَّقَوْا إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ تَذَكَّرُوا فَإِذا هُمْ مُبْصِرُونَ "[7]۔جن لوگوں نے تقویٰ اختیار کیا ہے انہیں جب شیطان کی طرف سے کوئی خیال آکر چھوتا بھی ہے تو (اللہ کو) یاد کرلیتے ہیں، چنانچہ اچانک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔
گناہوں کی بخشش اور اجرعظیم کاحصول
سورہ طلاق میں خداوند عالم کا ارشاد ہے:" وَ مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئاتِهِ وَ يُعْظِمْ لَهُ أَجْرا"[8]․ اور جوکوئی اللہ سے ڈرے گا، اللہ اس کے گناہوں کو معاف کردے گا اور اس کوزبردست ثواب دے گا۔

 

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

[1]  آل عمران/76
[2]  الاعراف/156
[3]  النحل/128
[4]  الزمر/61
[5]  الحدید/28
[6]  ترجمہ المیزان، ج19، ص306، سيد محمد حسين‏ طباطبايى، مترجم سید محمد باقر موسوی ہمدانی،  دفتر انتشارات اسلامى جامعه‏ى مدرسين حوزه علميه قم، قم، 1374 ش‏، چاپ پنجم۔
[7]  الاعراف/201
[8]  الطلاق/5

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
15 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 48