خلاصہ: تقوی ایسی بنیادی صفت ہے جس کے فائدے قرآن اور روایات میں متعدد مقامات پر بیان ہوئے ہیں، ان میں سے بعض فائدے حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کی زبان مبارک سے بیان ہوئے ہیں، جن کو اس مقالہ میں ذکر کرتے ہوئے کچھ وضاحت کی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تقوی کے معنی پرہیز کرنا، کڑی حفاظت اور خیال رکھنے کے ہیں، گناہ سے پرہیز کو تقوی کہا جاتا ہے۔ تقوی ایسی صفت ہے جو آدمی کو گناہ اور اللہ تعالی کی نافرمانی سے روکتی ہے اور اس کریم ذات کی اطاعت اور عبودیت پر ابھارتی ہے۔ جس شخص میں یہ صفت پائی جائے اسے متقی کہتے ہیں۔ تقوی کے مختلف پہلو ہیں جو اعتقاد، اخلاق اور کردار کو شامل ہوتا ہے۔ تقوی کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ قرآن کریم اعمال کے قبول ہونے کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: "إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّـهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ[1]"، "خدا صرف صاحبان تقوٰی کے اعمال کو قبول کرتا ہے"۔ قرآن مجید کی نظر میں آخرت کا بہترین زاد راہ تقوی ہے اور قرآن اور روایات میں تقوی کی بہت تاکید ہوئی ہے۔
اب اس تحریر میں ہم تقوی کے فائدوں کو حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کی زبان مبارک سے بیان رہے ہیں. آپ کا ارشاد گرامی ہے: "مَنِ اسْتَغْنی بِاللهِ إفْتَقَرَ النّاسُ إلَیْهِ، وَ مَنِ اتَّقَی اللهَ أحَبَّهُ النّاسُ وَ إنْ كَرِهُوا"[2]، "جو شخس اپنے آپ کو اللہ کے ذریعے بے نیاز سمجھے، لوگ اس کے محتاج ہوجائیں گے، اور جس نے تقوائے الہی اختیار کیا، لوگ اس سے محبت کریں گے چاہے وہ خود تقوا سے نفرت کرتے ہوں"۔
لوگ دنیا میں دوسروں کی نظروں میں محبوب بننے کے لئے کوشش کرتے ہیں کہ مختلف کام کرکے دکھائیں، کوئی کسی مقابلہ میں جیت کر، کوئی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر، کوئی سمندر کی تہ میں اتر کر، کوئی کسی کی تعریف کرکے اور کوئی کسی کی توہین کرکے، اور بعض اوقات ایسے کام کرتے ہیں جس سے ان کی جان بھی خطرے میں پڑجاتی ہے اور ہوسکتا ہے اپنی جان گنوا بیٹھیں، لیکن یہ سب کیوں؟ اس لیے کہ لوگوں کے دل میں اپنی محبت پیدا کریں اور ہر دل عزیز بن جائیں، جبکہ یہ ایسے افکار ہیں جن کا تعلق آدمی کے حیوانی پہلو سے ہے اور اس کے انسانی پہلو کا اس سے کوئی تعلق نہیں، اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ جو ایسے کام کرنے والے آدمی سے اس بنیاد پر محبت کریں گے وہ خود ایسی ہی پست افکار کے مالک ہوں گے جن کا تعلق آدمی کے انسانی پہلو سے نہیں بلکہ ان کی نظروں میں صرف حیوانیت ہی معیار ہے، لہذا جتنی حیوانیت بڑھتی چلی جائے گی ان کی اس آدمی سے محبت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا یہاں تک کہ انسانی اقدار اور دینی فضیلتیں بالکل ناپید ہوجائیں گی اور معاشرہ ایسے حیوانات سے بھر جائے گا جو انسانی لباس پہن کر حیوانی حرکات میں مصروف ہوں گے، جبکہ ایسی نازیبا حرکتیں کرکے اتنی تکلیف اٹھا کر اس مقصد تک پہنچنے کی ضرورت ہی کیا ہے جس کا نتیجہ بھی یقینی نہیں ہے اور ہوسکتا ہے کہ اس کی خواہش کے برخلاف نتیجہ سامنے آئے اور وہ لوگوں میں محبوب ہونے کے بجائے حددرجہ ذلت و رسوائی کا شکار ہوجائے۔
اگر دینی معارف اور اسلامی تعلیمات پر توجہ کی جائے تو حقیقی راستہ کچھ اور ہے۔ حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کی مذکورہ بالا نورانی حدیث کے مطابق اگر انسان تقوائے الہی اختیار کرے تو لوگ اس سے محبت کریں گے۔ تقوا کے مختلف فائدے ہیں جو دنیا و آخرت میں انسان کو ملتے ہیں، دنیاوی فائدوں میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ انسان لوگوں کا محبوب بن جاتا ہے اگرچہ وہ لوگ خود تقوا کے پابند نہ بھی ہوں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) جب زندان میں تھے تو ان کے ساتھی ان کے گرویدہ ہوگئے تھے، کیونکہ انہوں نے تقوائے الہی اختیار کیا تھا اور اپنے دامن کو گناہ سے بچایا تھا، صرف زندان والے نہیں بلکہ بادشاہ وقت بھی آپؐ کا گرویدہ ہوگیا اور آپؐ سے اپنے خواب کی تعبیر کرواتے ہوئے آپؐ کو امین سمجھا اور ملک مصر کی خزانہ داری کے منصب پر بٹھا دیا۔
تقوا اتنی بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ تقوا کے بغیر کسی مقام تک نہیں پہنچا جاسکتا، کیونکہ جب تک نفس گناہوں سے آلودہ اور نفسانی لذات اور خواہشات کا تابعدار رہتا ہے تب تک معنوی کمالات کے ابتدائی مقام بھی نصیب نہیں ہوتے اور جس حیات طیبہ تک پہنچنا مقصد خلقت ہے، وہاں تک نہیں پہنچ سکتا اور اگر انسان تقوا اختیار کرلے تو دنیا و آخرت میں تقوا کے فائدوں کو حاصل کرلے گا۔
دوسری حدیث میں حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) فرماتے ہیں" :اِنَّ اللهَ عَزّوجلّ یَقی بِالتَّقوی عَنِ العَبدِ ما عَزُبَ عَنهُ عَقلُهُ، وَ یُجلی بِالتَّقوی عَنهُ عَماهُ وَ جَهلَه"[3]، "یقیناً اللہ عزّوجل تقوا کے ذریعے بندہ سے اس چیز کو محفوظ کرتا ہے جو اس کی عقل سے دور رہ گئی ہے، اور تقوا کے ذریعے (اس کے لئے) واضح کردیتا ہے اس چیز کو جسے نہیں دیکھتا اور نہیں جانتا"۔
تقوا ایسا قیمتی گوہر اور کیمیا ہے جو انسان کی انفرادی اور سماجی، دنیاوی اور اخروی زندگی پر اثرانداز ہوتا ہے اور متقی انسان تقوا کی وسیع برکتوں سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ تقوا آیات اور روایات کی نظر میں نور و ہدایت، راہنما و نگہبان، حفاظتی ڈھال اور شیطان کے داخل ہونے کی رکاوٹ اور مضبوط قلعہ ہے۔
اگرچہ اللہ تعالی نے عقل کو ہمارے راستے کا ہادی بنایا ہے، لیکن عقل تمام حقائق کو نہیں سمجھتی اور اس کے باوجود انسان ہدایت الہی کا محتاج ہے۔
قرآن کریم تقوا کے بارے میں فرماتا ہے: "وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّـهُ"[4]، "اور اللہ سے ڈرو (تقوائے الہی اختیار کرو) اور اللہ تمہیں سکھاتا ہے"۔ اور نیز فرمایا ہے: "إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ یَجْعَلْ لَکُمْ فُرْقَاناً"[5]، اگر تم تقوٰی الٰہی اختیار کرو گے تو وہ تمہیں حق و باطل میں فرق کرنے کی صلاحیت عطا کردے گا"، "فرقان" وہ طاقت اور بصیرت ہے جو حق و باطل کی شناخت کا باعث بنتی ہے تاکہ انسان گمراہ نہ ہوجائے، یہ وہی نکتہ ہے جو حضرت امام جواد (علیہ السلام) کی حدیث میں بیان ہوا ہے: یعنی اگر کوئی چیز عقل سے چھپی رہ گئی اور عقلی ہدایت سے متقی انسان بہرہ مند نہ ہوپایا تو تقوا کی طاقت اس کی مدد کرے گی اور اگر زندگی کے راستے میں، بصیرت کی آنکھ کمزور ہوگئی تو تقوا کا نور راستہ دکھائے گا۔
اللہ تعالی متقی لوگوں کو ثواب عطا فرماتا ہے۔ بندہ کی حفاظت کرنا اور اسے غلطی کرنے سے بچالینا، ان ثوابوں میں سے ہے جو دنیا میں متقی لوگوں کو دیا جاتا ہے۔ لہذا اگر تقوا بصیرت افروز ہے تو اس کے فروغ سے بہرہ مند ہونا چاہیے۔
بعض اوقات ایسے افراد دیکھنے میں آتے ہیں جو علمی میدان میں بہت زبردست ہوتے ہیں اور دوسرے لوگوں سے بہت آگے آگے رہتے ہیں، لیکن یہی لوگ زندگی کے مسائل میں اور جس راستے کو انہوں نے انتخاب کرنا ہوتا ہے، اس میں سرگرداں اور حیرت زدہ ہوتے ہیں۔ ایسے موقع پر واضح ہوجاتا ہے کہ صرف عقل ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ اللہ کی خاص رہنمائی کی بھی ضرورت ہے جو تقوا کی بنیاد پر انسان کو نصیب ہوتی ہے۔
نیز حضرت امام جواد (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ آپؑ نے فرمایا: اگر آسمان اور زمین کسی بندہ پر بند ہوجائیں، پھر وہ تقوائے الہی اختیار کرے تو یقیناً اللہ ان سے نکلنے کا اس کے لئے راستے قرار دے گا۔[6]
جب انسان پروردگار کی معرفت حاصل کرتا ہوا ایسی منزل تک پہنچ جاتا ہے اور سمجھ جاتا ہے کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی نہیں جو اس کی مشکلات کو حل کرسکے، اس کی خواہشات کو پورا کرسکے اور اس کے سامنے بند دروازوں کو کھول سکے تو وہ صرف اللہ پر ہی بھروسہ رکھے گا، کیونکہ زمین و آسمان کی کنجیاں اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں، کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ کے حکم کے ماتحت ہے اور اس ذات کے سامنے ہر چیز تسلیم ہے، لیکن چونکہ انسان دیکھتا ہے کہ لوگوں کے پاس بھی کچھ طاقتیں ہیں اور وہ ان طاقتوں کے ذریعے کتنے کام انجام دے رہے ہیں تو سمجھتا ہے کہ یہ لوگ بھی کچھ مشکلات کو حل کرسکتے ہیں، جبکہ اصل میں تو اللہ ہی ہے جو مختلف وسائل کے ذریعے مشکلات کو برطرف کرتا ہے اور جن کو وسیلہ بننے کی توفیق دیتا ہے، اسے کچھ طاقتیں بھی عطا فرماتا ہے، مگر یہ اس کی قدرت کا کمال ہے کہ اس نے وسیلہ کے ذریعے کسی کی مشکل کو حل کردیا۔ لہذا انسان کو اس بات پر توجہ کرنا چاہیے کہ مشکلات صرف اللہ کی طاقت سے اور اسی کے ارادے سے برطرف ہوتی ہیں، چاہے وہ کسی کو بھی وسیلہ بنادے، وسیلہ بھی وہ خود بناتا ہے اور مشکل کو بھی اس وسیلے کے ذریعے حل کرتا ہے۔ جب انسان اس منزل پر پہنچ گیا تو سمجھ جائے گا کہ چاہے آسمان و زمین کے راستے بند ہوجائیں، بند راستے کو کھولنے پر صرف اللہ ہی قادر ہے، لیکن اللہ کس کے لئے بند راستے کو کھولے گا جس نے تقوائے الہی اختیار کیا ہو، اللہ کی فرمانبرداری کی ہو اور اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے گناہ سے پرہیز کیا ہو۔
نتیجہ: تقوی انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس کی اہمیت قرآن میں بھی مختلف مقامات پر بیان ہوئی ہے اور احادیث میں بھی۔ تقوی کے مختلف نتائج ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں کہ انسان لوگوں، کا محبوب بن جاتا ہے، جو چیز صاحب تقوی کی عقل سے دور رہ گئی ہو اسے تقوی کے ذریعے واضح کردیتا ہے، جو انسان تقوی اختیار کرے، اس کی مشکل کو ختم کرنے کے لئے اللہ تعالی کوئی راستہ کھول دیتا ہے چاہے زمین و آسمان کے راستے بند ہوں۔ نیز ان کے علاوہ بھی تقوی کے فائدے آیات و روایات میں بیان ہوئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] سورہ مائدہ، آیت 27۔
ؔ[2] موسوعة الإمام الجواد، ج2، ص329۔۔
[3] موسوعة کلمات الامام الجواد علیه السلام، ص 133۔
[4] سورہ بقرہ، آیت 282۔
[5] سورہ انفال، آیت 29۔
[6] دانشنامه امام جواد علیه السلام، ج1، ص167 میں ابن صباع کی کتاب فصول المہمہ، ص273 سے منقول۔
Add new comment