خلاصہ: دور حاضر میں بعض دنیا پرست لوگ ایسے ہیں جو اپنی ظاہری شکل و صورت کو تقوا کا نام دے کر اپنی دنیا کو سنوار رہے ہیں اور تقوا کے نام پر عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ مقالہ ھذا میں تقوا کی اصل صورت قرآن اور علیؑ کی نگاہ میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
دور حاضر میں جہاں بہت سے دنیا پرست لوگ اسلام کے نام پر عوام کو طرح طرح سے دھوکا دے کر اپنی جیب گرم کررہے ہیں، وہیں تقویٰ اور پرہیزگاری کے نام پر عوام کے سامنے طرح طرح کی شکل و صورت بنا کر اس پاکیزہ لفظ (تقویٰ) کو بدنام کرتے ہوئے عوام کو دھوکا دینے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، چونکہ ایسے لوگ بظاہر صورت و شکل سے بڑے متّقی اور پارسا نظر آتے ہیں چنانچہ عوام بیچاری ان کے ہر قول و فعل کو حکم خدا و رسول سمجھ کراطاعت کرنے لگتی ہے جبکہ حقیقت میں ایسے لوگ دین، عرفان اور تقویٰ کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ یہ اپنی طرف سے کتاب و سنّت کی من مانی تفسیریں بیان کر کے لوگوں کے دین و ایمان سے کھیلتے ہوئے ان کی دنیا اور آخرت دونوں خراب کر دیتے ہیں۔ ان میں سے بعض تو سرِ عام قرآن و احادیث کی من گھڑت توضیحات بیان کر کے حق کو باطل سے مخلوط کرتے ہیں، حرام کو حلال اور حلال کو حرام بیان کرتے ہیں، مستحبّات کو واجبات پر ترجیح اور واجبات کو ترک کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، مشرکانہ جملات و کلمات بطور ورد لوگوں کو پڑھنے کے لئے دیتے ہیں نیزنجاسات کھانے کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ لوگوں کودیگر حرام کاموں پر بھی اکساتے ہیں۔
ایسے میں ضروری ہے کہ لوگوں کے سامنے قرآن مجید اور اقوال علی(علیہ السلام) کی روشنی میں تقویٰ کی حقیقی تصویر پیش کی جائے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید اور حضرت علی (علیہ السلام )نے تقویٰ اور صاحبانِ تقویٰ کے بارے میں کیا معارف و مطالب بیان کئے ہیں۔
سب سے پہلے لغت کی روشنی میں تقویٰ کے معانی پرایک نگاہ ڈالیں۔
لغت میں تقوی کے معنی: ہر اس چیز سے کہ جو مضر اور نقصان دہ ہے بچنے اور پرہیز کرنے کو تقوی کہا جاتا ہے۔[1]
دین میں تقویٰ کی اصطلاح سے مراد انسان کا اپنے آپ میں گناہ سے بچنے کا ملکہ(ٹھوس صلاحیّت) پیدا کرنا ہے۔ یعنی اپنے اندر گناہوں سے بچنے کی ٹھوس صلاحیّت پیدا کرنے کا نام تقویٰ ہے۔
تقوی کی حقیقی شکل قرآن اور علی(ع)کی نگاہ میں
ایک جوان ہمیشہ اپنی نوجوانی کے عالم میں دوراہے پرہوتاہے، دو متضاد قوتیں اسے کھینچتی ہیں۔ ایک طرف تو اس کا اخلاقی اور الہی ضمیر ہے جواسے نیکیوں کی طرف ترغیب دلاتا ہے۔ دوسری طرف نفسانی غریزے، نفس امارہ اورشیطانی وسوسے اسے خواہشات نفسانی کی تکمیل کی دعوت دیتے ہیں۔ عقل و شہوت، نیکی و فساد،پاکی و آلودگی، اس جنگ اورکشمکش میں وہی جوان کامیاب ہوسکتاہے جو ایمان اور تقوی کے اسلحہ سے لیس ہو۔
یہی تقوی تھا کہ حضرت یوسف، عزم مصمم سے الہی امتحان میں سربلند ہوئے اور پھر عزت و عظمت کی بلندیوں کوچھوا۔ قرآن کریم، حضرت یوسف کی کامیابی کی کلید، دو اہم چیزوں کو قرار دیتا ہے، ایک تقوی اور،دوسرا صبر۔ ارشادہے:" إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَ يَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لا يُضيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنينَ"[2]۔اور جو کوئی بھی تقوی اور صبر اختیار کرتا ہے، اللہ نیک اعمال کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا ہے۔
دوسرے مقام پر ارشاد خداوندی ہے:" ذلِكَ أَمْرُ اللَّهِ أَنْزَلَهُ إِلَيْكُمْ وَ مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئاتِهِ وَ يُعْظِمْ لَهُ أَجْرا"[3]یہ حکم خدا ہے جسے تمہاری طرف اس نے نازل کیا ہے اور جو تقویٰ الٰہی اختیار کرتا ہے، خدا اس کی برائیوں کو دور کردیتا ہے اور اس کے اجر میں اضافہ کردیتا ہے۔
ایک مقام پر متقیوں کے اجر عظیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے: " وَ إِنْ تُؤْمِنُوا وَ تَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظيمٌ"[4] گر ایمان و تقویٰ اختیار کرو گے تو تمہارے لئے اجر عظیم ہے۔
حضرت علی (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: " يَا بُنَيَّ أَنَّ أَحَبَّ مَا أَنْتَ آخِذٌ بِهِ إِلَيَّ مِنْ وَصِيَّتِي تَقْوَى اللَّہ "[5]۔
بیٹا! جان لوکہ میرے نزدیک سب زیادہ محبوب چیزاس وصیت نامے میں تقوی الہی ہے جس سے تم وابستہ رہو۔
مضبوط حصار(قلعہ)
جوانوں کے لئے تقوی کی اہمیت اس وقت اجاگر ہوتی ہے جب زمانۂ جوانی کے تمایلات، احساسات اور رجحانات کو مدنظر رکھاجائے۔ وہ جوان جو جذبہ، خواہشات نفسانی، تخیلات اورتند و تیز احساسات کے طوفان سے دوچار ہوتا ہے، ایسے جوان کے لئے تقوی ایک نہایت مضبوط ومستحکم قلعے کی مانند ہے جو اسے دشمنوں کی تاخت وتاراج سے محفوظ رکھتا ہے، یہ تقوی ایک ایسی ڈھال کی طرح ہے جوشیاطین کے زہرآلود تیروں سے جسم کو محفوظ رکھتی ہے۔
امام فرماتے ہیں:اعلمواعباداللہ ان التقوی دارحصن عزیز۔[6]: اے اللہ کے بندو! جان لوکہ تقوی ناقابل شکست قلعہ ہے۔
پھر اسی خطبے میں آپ کا ارشاد مبارک ہے: فَإِنَّ تَقْوَى اللَّهِ مِفْتَاحُ سَدَادٍ وَ ذَخِيرَةُ مَعَادٍ وَ عِتْقٌ مِنْ كُلِّ مَلَكَةٍ وَ نَجَاةٌ مِنْ كُلِّ هَلَكَةٍ[7]۔تقویٰ ہر دروازے کو کھولنے کی کنجی اورقیامت کے لیے ذخیرہ ہے اور شیطان کی ہرطرح کی غلامی سے آزادی کا باعث ہے اور ہر ہلاکت سے نجات ہے۔
بہت سے جوان، ارادے کی کمزوری اور فیصلہ نہ کرنے کی صلاحیت کی شکایت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں: ہم نے بری عادات کوترک کرنے کا بارہا فیصلہ کیا لیکن کامیاب نہیں ہوئے، امام علی علیہ السلام کی نظرمیں تقوی، ارادہ کی تقویت، نفس پرتسلط، بری عادات اور گناہوں کے ترک کرنے کا بنیادی عامل ہے، آپ فرماتے ہیں "آگاہ رہو کہ غلطیاں اور گناہ اس سرکش گھوڑے کے مانند ہیں جس کی لگام ڈھیلی ہو اور گناہگار اس پرسوار ہوں، یہ انہیں جہنم کی گہرائیوں میں سرنگوں کرے گا اور تقوی اس آرامدہ سواری کی مانند ہے جس کی لگام ڈھیلی اور گناہ گار اس پرسوار ہوں، یہ انہیں جہنم کی گہرائیوں میں سرنگوں کرے گا اور تقوی اس آرامدہ سواری کی مانند ہے جس کامالک اس پر سوار ہے، اس کی لگام ان کے ہاتھ میں ہے اوریہ سواری اس کو بہشت کی طرف لے جائے گی"[8]۔
جو لوگ اس وادی میں قدم رکھتے ہیں اللہ تعالی کی عنایات اورالطاف ان کے شامل حال ہوجاتے ہیں جیساکہ ارشاد ہے: " وَ الَّذينَ جاهَدُوا فينا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا وَ إِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنين"[9]۔ اور وہ لوگ جو ہماری راہ میں جدوجہد کرتے ہیں ہم بالیقین وبالضرور ان کو اپنے راستوں کی طرف ہدایت کریں گے۔
مطالب بالا سے نتیجہ نکلتا ہے کہ تقوی و پرہیزگاری ایک ایسی صفت اور ملکہ ہے کہ اگر کسی میں یہ صفت اور ملکہ راسخ ہوجائے تو بہت سے باطنی امراض سے بچنے کے ساتھ ساتھ انسان کے اندر قوت ارادی پیدا ہوجاتی ہے اور شیطان کے دام اور جال سے بچنے کا طریقہ معلوم ہوجاتا ہے اور سب سے بڑٰی بات یہ ہے کہ وہ انسان خدا سے قریب ہوجاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1]مجمعالبحرين ج : 1 ص : 448، لسانالعرب ج : 15 ص : 401۔
[2]یوسف/۹۰
[3]طلاق/5
[4]آل عمران/ 179
[5]نهجالبلاغة ، ص394۔امام علی کی وصیت امام حسن کو۔ سید رضی، انتشارات دار الهجره، قم، بی تا، نسخه صبحى صالح۔ بحار الانوار، ج1، ص223، محمد باقر بن محمد تقى بن مقصود على مجلسى، انتشارات مؤسسة الوفاء بيروت - لبنان، 1404 قمرى
[6]نہج البلاغہ خطبہ ١٥٧، ص221۔ سید رضی، انتشارات دار الهجره، قم، بی تا، نسخه صبحى صالح۔
[7]نہج البلاغہ خطبہ 230، ص315۔ سید رضی، انتشارات دار الهجره، قم، بی تا، نسخه صبحى صالح۔
[8] نہج البلاغہ خطبہ 230، ص315۔ سید رضی، انتشارات دار الهجره، قم، بی تا، نسخه صبحى صالح۔
[9]عنکوبت/۶۹
Add new comment